لاہور شہر کو بہت سی علمی، ادبی اور سیاسی فضیلتیں حاصل رہی ہیں۔ مگر اس شہرِ محبت کی سب سے بڑی پہچان اس شہر میں محو آرام وہ ولی اللہ ہیں جنہوں نے صدیوں پہلے انسان دو ستی کا ایسا پیغام دیا تھا کہ انسان تعصبات اور تفرقات سے نکل کر وحدت کے سفر پر آگے بڑھنے لگا۔ رنگ و نسل کی تمیز کیے بغیر ہر فرد سے یکساں سلوک نے انہیں عوام کی نظروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معتبر کر دیا۔ ان کے حسن سلوک کا ایسا اثر تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ان کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ یوں تو لاہور میں بہت سی درگائیں ہیں۔ جو دعوتِ خیر کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ مگر لاہور شہر میں آرام فرما ایک بڑا اور معتبر نام شاہ حسین کا ہے۔ شاہ حسین کی منظوم فارسی سوانح عمری حقیقت الفقرا کے مطابق ان کی زندگی کے ابتدائی دس سال گھر, مسجد اورمدرسہ کے درمیان گزرتے ہیں۔ دس سال کی عمر میں تیس سپارے صرف تیس دنوں میں حفظ کر کے پڑھ دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ان کی یہ خوبی سارے لاہور شہر میں مشہور جاتی ہے۔ شاہ بہلول جو شاہ حسین کی تربیت کیا کرتے تھے جب اپنے آبائی علاقے چنیوٹ جانے لگتے ہیں تو شاہ حسین کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ حضرت داتا گنج بخش کے دربار پر حاضر رہیں۔ اور عشق و تصوف کی منزلیں طے کرتے رہیں۔ شاہ حسین دن کو حضرت داتا صاحب کے آستانے پر حاضر رہتے ہیں اور رات کو دریاِ راوی میں کھڑے ہو کر قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ حسین علم اور حق کی جستجو میں شہر کے دوسرے مدارس میں جاتے ہیں اور وقت کے بڑے عالم شیخ سعد اللہ کی شاگردی اختیار کر لیتے ہیں۔ایک دن شاہ حسین اپنے استاد سے تفسیر پڑھ رہے ہوتے ہیں اور قرآن کی ایک آیت (ترجمہ) دنیا کی زندگی لہو و لعب کے سوا کچھ نہیں۔ کو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔اور پھر خود ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ یہ زندگی کھیل تماشے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔سر مستی کے عالم میں ناچتے گاتے درس گاہ سے باہر آجاتے ہیں۔ ان سے بے شمار کرامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔اور پھر عمر بھر کرامتوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔اپنی زندگی میں شاہ حسین دوستوں کے ساتھ راوی پار شاہدرہ جاتے ہیں اور ایک جگہ دکھا کے انہیں کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انہیں یہاں دفن کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ تیرہ برس میں یہاں دفن رہوں گا ۔ پھر راوی میں بہت بڑا سیلاب آئے گا ۔جس سے ان کی قبر بھی برباد ہوجائے گی۔اور ان کا جسم اطہر شاہدرہ سے نکال کر بابو پورہ موجودہ باغبانپورہ میں دفن کردیا جائے گا۔ بلکل ایسا ہی ہوا ۔وفات کے بعد انہیں پہلے شاہدرہ میں دفن کیا گیا اور پھر وہاں سے باغبانپورہ میں۔آج کل ان کا مزار باغبانپورہ میں ہے۔ اور ان کی مناسبت سے لاہور میں میلہ چراغاں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ شاہ حسین کی شخصیت ان کے کلام اور پیغام کو عام کرنے کے لیے پیلاک اور محکمہ اطلاعات و ثقافت کے زیر اہتمام پانچ روزہ میلہ چراغاں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملک کے نامور گلوکاروں,فنکاروں اور پنجابی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ میلے کے سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس میں ہر کوئی اپنا دامن خوشیوں سے بھر لیتا ہے۔ میلے میں شریک ہو پتہ چلا کہ پیلاک اور حکومت پنجاب نے میلہ چراغاں کو نہ صرف لاہور شہر، پنجاب بلکہ ملک گیر حثیت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس میلے میں بلوچستان ,سندھ,خیبرپختونخواہ ,آزاد کشمیر سکردو اور گلگت سے بھی بہت سے لوگ شریک رہے۔ خاقان حیدر غازی اور مدیحہ شاہ کی کی کمپئیرنگ سے میلے کا آغاز صوفیانہ کلام سے ہوا جس میں استاد حامد علیخان، غلام عباس، سائرہ نسیم، شفقت امانت علی خان، چاند خان، سورج خان اور سجاد بیلہ نے شاہ حسین کی کافیاں سنا حاضرین محفل سے بھر پور داد وصول کی۔ میلہ کے دوسرے دن شاہ حسین اور میلہ چراغاں پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین نے کہا کہ یہ میلہ پورے پنجاب کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ جس میں سارے ملک سے لوگ شریک ہوا کرتے تھے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں یہ میلہ سرکاری طور پر منایا جاتا تھا۔ عام تعطیل ہوا کرتی تھی۔ شاہی قلعے سے لے کر دربار شاہ حسین تک سونے چاندی کے سکے لوگوں پر نچھاور کیے جاتے تھے۔ اقبال قیصر نے بتایا کہ شاہ حسین شاعر ہونے کے ساتھ ایک اچھے سنگیت کار بھی تھے۔ ان کی ہر کافی کے اوپر راگوں کے نام درج ہیں۔ مدثر اقبال بٹ کا یہ کہنا بلکل بجا تھا کہ اگر ہم نے اب بھی اپنے بچوں کو مادری زبان پنجابی سے دور رکھا۔تو ہماری اگلی نسلوں کے لیے شاہ حسین اور ان جیسے دوسرے صوفی شعرا کے کلام کو سمجھنے کا سفر ناممکن ہو جائے گا۔ انہوں نے جہاں ڈی جی پیلاک اور حکومت پنجاب کی جانب سے سجھانے جانے والے میلے کی تعریف کی وہیں اس خواہش کا اظہار بھی کیا ۔کہ اب ہمیں بچوں کو مادری زبان میں تدریس کا عمل شروع کر دینا چاہیے ۔میلے کے اگلے سیشن میںکل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ملک کے ہر حصے سے شاعر تشریف لائے ہوئے تھے۔ تصوف تے ملکی ہم آہنگی کے عنوان سے جاری ایک سیمینار میں مقررین نے بتایا کہ نوجوان نسل کی تربیت صوفیا کرام کی تعلیمات سے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صوفیا کرام کی تعلیمات سے ہی ہم نفرت، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں۔صوفیا کی تعلیمات کا مقصد معاشرے کے اندر امن، محبت، رواداری اور برداشت پیدا کرنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا سے پردہ کرجانے کے بعد بھی ان کی قبریںفیوض و برکات کا مرکز بنی رہتی ہیں۔میلہ میں آنے والے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، گلوکاروں اور عام شہریوں نے کامیا ب میلہ کے انعقاد پر ڈی جی پیلاک ڈکٹر صغرا صدف اور حکومت پنجاب کی کاوشوں کو سراہا۔ کہ انہو ں نے میلوں کی روایات پھر سے زندہ کردیاہے۔ حاضرین نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ایسے میلے پورے ملک میں لگتے رہنے چاہیے۔ تقریب کے آخر میں ڈی جی پیلاک نے میلے میں شریک سب معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ حکومت پنجا ب اور پیلاک کی کوشش ہے کہ لوگوں کو مسلسل خوشگوار تفریح کے مواقع فرہم کیے جاتے رہیں۔