اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) رواں سال، افغان امن مذاکرات کا قطعی کوئی امکان نہیں۔ امریکہ کی عدم دلچسپی، افغان حکومت کی نااہلی اور طالبان کی مسلسل فتوحات کو مذاکرات نہ ہونے کے اہم عوامل گردانا جا رہا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد، امریکہ اس جنگ زدہ ملک میں بظاہر دلچسپی مکمل کھو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں شام، ایشیاءبحرالکاہل اور جنوبی بحیرہ چین، امریکی دلچسپی کا نیا محور ہیں اسی لئے چین، روس اور پاکستان کو، امریکہ کے بغیر ہی، افغان امن عمل کیلئے کوششیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ اس ضمن میں افغان طالبان کا معاملہ دلچسپ ہے۔ مغربی سرحد پار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملا ہیبت اللہ کی زیرقیادت اگرچہ طالبان نے غیر معمولی جنگی کامیابیاں حاصل نہیںکی ہیں تاہم شمال سمیت مختلف علاقوں میں انہوں نے پیشقدمی کرنے کے علاوہ مشرقی اور جنوبی افغانستان میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنایا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر ملا ہیبت اللہ نے زوال پذیر اشرف غنی حکومت سے بات چیت کی سنجیدہ کوشش کی تو طالبان کی صفوں میں پھوٹ پڑ سکتی ہے چنانچہ ملا ہیبت اللہ اس حوالہ سے بے حد محتاط ہیں۔ رہی بات افغان حکومت کی تو اس وقت صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نئی سیاسی لڑائی کیلئے صف بندی کر رہے ہیں جب کہ سابق صدر حامد کرزئی بھی حکومتی معاملات میں مداخلت سے باز نہیں آئے اور اشرف غنی ان سے بہت نالاں ہیں۔ افغان حکومت کیلئے، امریکہ کا غیر یقینی رویہ اصل مسئلہ ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ٹرمپ انتظامیہ، افغانستان کی موجودہ مالی امداد جاری رکھے گی یا نہیں؟ اس امر کا بھی قومی امکان ہے کہ ٹرمپ، افغانستان کو بھی ایک بوجھ قرار دیکر جان چھڑانے کی کوشش نہ کریں۔ اس صورت میں افغان حکومت کے بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ ان حالات سے اشرف غنی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈر بھی پریشان ہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو دستوں کی موجودہ تعداد ہی برقرار رکھی جائیگی، تعداد میں کمی کی جائیگی یا فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے؟