وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جو کوئی ’’بات ‘‘کریں تو بھی خبروں کا ’’مرکز ‘‘رہتے ہیں اگر دو چار روز خاموش رہیں تو بھی صحافتی حلقوں میں’’ تشویش ‘‘ کی لہر دوڑ جاتی ہے پچھلے چار سال کے دوران نہ جانے چوہدری نثار علی خان کے خلاف کتنے ہی ’’قصے کہانیاں‘‘گڑھے گئے لیکن یہ تمام’’ قصے کہانیاں‘‘ حقیقت نہ ہونے کی وجہ سے جھوٹی ثابت ہوتی ہیں کبھی ’’اخبار نویس اور اینکر پرسن ‘‘ قصہ خوانوں کی طرح نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اختلافات کی کہانی سناتے ہیں اور پھر یہی لوگ ان کے حکومت سے الگ ہونے کی پیش گوئیاں کرتے کرتے تھکتے نہیں کبھی ان سے وزارت داخلہ کا قلمدان واپس لئے جانے کی’’ در فتنی‘‘ چھوڑ دیتے ہیں اورکبھی ان کے دل میں تحریک انصاف میں شمولیت کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن کوئی آدمی ان کی دیانت داری پر انگلی نہیں اٹھا سکتا نواز شریف حکومت میں وزارت داخلہ واحد وزارت ہے جس کی کارکردگی پر وزیر اعظم فخر کر تے ہیں وزارت داخلہ نے کوئی کام کیا ہے تو وفاقی وزیر داخلہ نے اس کی کارکردگی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی اور اس پر بحث کرائی لیکن اس کے بعد کسی وزیر کو اپنی وزارت کی کارکردگی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی جرات نہیں ہوئی چوہدری نثار علی خان کی صحت ’’مثالی ‘‘تو نہیں وہ سالہاسال سے مختلف بیماریوں سے لڑتے آرہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی کار کردگی پر کبھی بیماری کو’’ حاوی‘‘ نہیں ہونے دیا اسی طرح وہ بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے بیورو کریسی سے’’ رہنمائی ‘‘حاصل کر نے کی بجائے اسے ’’گائیڈ لائن‘‘ دیتے ہیں چوہدری نثار علی خان کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے ان کی کسی بیورو کریٹ سے نہیں بنتی جس کی وجہ سے کوئی بیوروکریٹ زیادہ دن ان کے پاس کھڑا نہیں ہوتا اس معاملہ کے بارے میں بڑی حد تک مبالغہ آرائی کی جاتی ہے البتہ اس حد تک حقیقت ہے کہ روایتی اور سست رفتار بیوروکریٹ کے لئے ان کی وزارت میں گنجائش نہیں ہوتی جو کام سالہاسال مکمل ہوتے نظر نہیں آتے تھے وہ انہوں نے ’’مہینوں اور ہفتوں‘‘ میں مکمل کر دکھائے ۔سیف سٹی اسلام آباد کا منصوبہ سست روی سے جاری تھا جسے نہ صرف مکمل کرا لیا بلکہ چینی کمپنی ’’ہواوے‘‘ کو مزید 500،600 کیمرے مفت لگانے پر مجبور کر دیا وہ وفاقی حکومت سے چن چن کر دیانت دار اور مستعد افسر اپنی وزارت میں لگاتے ہیں جب وہ افسر دن رات کام کرنے والے وزیر کے ساتھ دوچار دن ہی کام کرتے ہیں تو چھٹی پر چلے جاتے ہیں یا اپنا تبادلہ کرا لیتے ہیں مجھے یاد ہے ایک ڈپٹی سیکرٹری بڑے شوق سے وزارت داخلہ میں تبادلہ کر کے آیا لیکن پہلے ہی روز وزارت میں کام کا دبائو دیکھ کر اپنا تبادلہ منسوخ کروا دیا ۔چوہدری نثار علی خان کی بیوروکریسی کے ساتھ ’’سخت گیری‘‘ میں بڑی حد تک صداقت پائی جاتی ہے لیکن دیانت دار اور محنتی افسران کی کارکردگی پر تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے اور انعام سے بھی نوازتے ہیں ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ کسی افسر کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرنے دیتے تاکہ رشوت کا بازار گرم نہ ہو " اس حقیقت سے یقینا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی سرکاری افسر کے پاس اختیارات ایک امانت ہوتے ہیں جو وہ قانون و ضوابط کی حدود و قیود میں رہ کر اور انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر استعمال کرتا ہے۔ ایک ایسی وزارت کہ جسکا ایک ایک فیصلہ اورجس کے ہر افسر کا اختیار براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتا ہو وہاں اختیارات کے استعمال میں احتساب اور جواب طلبی کی روایت کو مائیکرو مینجمنٹ قرار نہیں دیا جا سکتااختیارات کے غلط استعمال پر وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے جواب طلبی کچھ لوگوں کو پسند نہیں ہوتی جس انداز میں ماضی میں پاکستانی ویزوں کا اجرائ، سیکیورٹی ایجنسیز کے اجازت نامے، آئی این جی اوز کے سلسلے میں بے ضابطگیاں، مختلف ڈیپارٹمنٹس میں سرکاری پیسے اور وسائل کا غلط استعمال اور ایسے بے شمار عوامی مفادات سے متعلقہ امور میں اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جسطرح ماضی قریب میں اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری پاسپورٹس ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے بین الاقوامی معاہدوں کی آڑ میں مجرموں کو پاکستان لا کر رہا ئی دلوائی گئی اور دیگر کئی گھنائونے جرائم کا ارتکاب کیا گیاوہ حالات اوروہ واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس تناظر میں اختیارات کے استعمال پر جواب دہی کی روایت قائم کی گئی جہاں تک افسران اور سیکرٹریوں کے تبادلے کا معاملہ ہے حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے پر چوہدری قمر زمان نے اپنی ریٹائرمنٹ تک بطورسیکرٹری داخلہ اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔بعدازاںوہ چیئرمین نیب منتخب ہوگئے۔ جہاں تک شاہدخان کا تعلق ہے تو شاہد خان نے طویل عرصہ بطور سیکرٹری داخلہ اپنی خدمات سر انجام دیں۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے بارہا اپنی میٹنگز میں انکی نہ صرف قابلیت کا اعتراف کیا ہے بلکہ ان کے دور میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور وزارت کی کارکردگی کو سراہا ہے کاش شاہد خان کی الوداعی تقریر ہی پڑھ لی جائے جس میں انہوں نے سینئر افسران کی موجودگی میں کہا کہ’’ میں نے اپنی زندگی میں جن چند اہل اور دیانت دار وزیروں کے ساتھ کام کیا ہے اس میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا مقام سب سے بلند ہے۔ حقیقت یہ ہے شاہد خان نے اپنی ً صحت کے مسائل کی وجہ سے وزارتِ داخلہ سے ایوان صدر جانے کا فیصلہ کیا جس کی وفاقی وزیرِ داخلہ نے مکمل تائید و حمایت کی اور وفاقی وزیرِ داخلہ نے پی ایم ہائوس سے بات کر کے شاہد خان کی بطور سیکرٹری ایوان صدر تعیناتی میں سہولت فراہم کی۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل عملیش ایک دیانت دار افسر کی شہرت رکھتے ہیں لیکن جب انہوں نے ایف آئی اے کی کارکردگی کا بیچ چوراہے میں بھانڈا پھوڑ دیا وفاقی وزیر داخلہ کی پیشگی اجازت کے بغیر انٹرویو دیا تو اس پر چوہدری نثار علی خان نے ان سے بازپرس کی اسی طرح آئی جی پولیس طارق مسعود یسٰین نے پارلیمنٹ کی مجلس قائمہ کے اجلاس میں اسلام آباد کے’’ سیف سٹی ‘‘ کی وجہ سے ممبئی کی طرز کا دہشت گردی کا ایک اور واقعہ ہونے سے بچ جانے کی ’’گپ شپ ‘‘لگائی تو یقیناً اس گپ شپ پر چوہدری نثار علی خان نے شدید ناراضی کا اظہار کیا جس پر آئی جی پولیس اسلام آباد کو چلتا کیا اور سات سات گاڑیاں رکھنے پر ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا ۔گذشتہ چار دہائیوں سے چوہدری نثار علی خان ملکی سیاست میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ہمیشہ اصولی سیاست کی ہے انہوں نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز بھی مسلم لیگ سے کیا ہے اسی پر اختتام چاہتے ہیں پچھلے ،35,30سال سے نواز شریف کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے میدان سیاست میں سرگرم عمل ہیں ان کے پاس مسلم لیگ(ن) کا کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے 80فیصد فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ وہ مسلم لیگ(ن) کا ’’سیاسی دماغ ‘‘ہیں تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی چوہدری نثار علی خان گنتی کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے’’ سردگرم موسم ‘‘میں بھی شریف خاندان کا ساتھ نہیں چھوڑا