قارئین کبھی کبھی تو یہ سوچ کر شدید حیرت بلکہ بے حد صدمہ ہوتا ہے کہ کیا یہ پاکستان ہے؟ ایک اسلامی، فلاحی اور مذہبی مملکت ہے؟ جس میں ہم رہ رہے ہیں؟ یہ وہ پاک وطن ہے جس کو ہم نے ہندوئوں اور انگریزوں کے مذہب، تہذیب اور ثقافت سے ممتاز و مختلف ہونے کی وجہ سے الگ حاصل کیا تھا؟ اگر پھر سے اس میں دوبارہ وہی کچھ رائج و راسخ کرنا تھا تو پھر الگ ہونا کیا ضرور تھا؟ ٹی وی کھولنے کی دیر ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایسے بے حجاب و بے لگام پروگرام دھڑا دھڑ چل رہے ہوتے ہیں کہ آنکھیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں، انڈین پروگراموں کی ہندو ناریوں اور میموں کو تو چھوڑ ہی دیجئے اپنے ملک کی، وطن عزیز کی بہو بیٹیاں اور بہنیں بھی تھیٹروں، فلموں اور ڈراموں میں ایسے ایسے کارنامے انجام دے رہی ہیں کہ کیا کہئے سمجھ نہیں آتی۔ ثقافت کے نام پر ایسے ایسے پروگراموں کی اجازت دینے والے کون ہیں۔ کہنے کو ٹی وی، ویڈیو اور کیبل محض الفاظ ہیں، بڑوں کی تفریح کا ساز و سامان ہیں اور بچوں کے کھیل تماشے ہیں لیکن اندر خانے ان تماشوں نے نئی نسل کو جس طرح اپنے اندھی لپیٹ میں لے کر پراسرار انداز سے اخلاقی تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے اس کا ادراک نہ تو لمحہ موجود میں والدین کر رہے ہیں اور نہ ہی ظاہر ہے خود معصوم بچوں کو یہ احساس ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے، تربیت سے اور مذہب کی … اقدار سے کس قدر دور ہوتے جا رہے ہیں یا دور چلے گئے ہیں کون نہیں جانتا کچھ عرصہ پہلے تک صرف وی سی آر محض اونچے طبقے میں بطور ’’تعیش‘‘ متعارف تھا ڈش تصور تک نہ تھا اب یہ عالم ہے کہ وی سی آر تو کیا انٹرنیٹ ہر گھر میں ریڈیو کی طرح عام ہے، بے حجاب فلمیں تفریح کے نام پر ناگزیر ہو چکی ہیں، کبھی اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی خرابیوں پر بات کرنے بلکہ باقاعدہ واویلا کرنے والے والدین نے یہ بھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کب تک ہوتا رہے گا؟ بچوں کی جا و بے جا اور ناجائز خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال کر وہ ان کو کس قسم کی سستی تفریح اور بے معنی خوشیاں مہیا کر رہے ہیں؟ سائنس کے یقیناً لاتعداد مفادات ہیں لیکن انسان نے اس کے محض مضمرات کو اپنا کر اپنے ہاتھوں خود ہی اپنے لئے تباہی کے گڑھے کھود لئے ہیں، ڈش، کیبل، موبائل اور ٹی وی جو کہ طاقتور ترین ذرائع ابلاغ ہیں ان سے تعلیم پھیلانے، علم کو عام کرنے اور مذہبی اقدار کے فروغ کا کام لیا جا سکتا تھا لیکن صدافسوس پورا معاشرہ اس طور ان کے تخریبی اثرات کی لپیٹ میں آیا ہے کہ آپ کسی صورت مفر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
وطن عزیز کے کسی بھی چھوٹے شہر کے کسی بھی کوچے، کسی بازار کسی دوکان پر چلے جائیے وہاں آپ کو ویڈیو گیم، سی ڈی پلیئرز پر فلموں کا کاروبار پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ سکولز اور کالجز سے بھاگی ہوئی نسبتاً غریب نسل کے بچے ان کاروباروں کے عروج و ارتقاء کا سبب ہیں بصارت کی خرابی اور بصیرت کے نقصان کے علاوہ مار دھاڑ سے بھرپور یہ غیر ملکی فلمیں نفسیاتی، جذباتی، اخلاقی اور ذہنی ہر سطح پر انحطاط کا حتمی ذریعہ ہیں۔ شروع شروع میں جب و سی آر پر پابندی لگی تھی تو کسی حد تک اس طوفان کے منہ پر بند بندھا ہوا تھا پھر جب یہ پابندی ختم ہو گئی اور میڈیا آزاد ہو گیا تو قوم شتر بے مہار ہو گئی ہر قسم کا کاروبار کھلم کھلا ہو رہا ہے جس کا ذمہ دار ہم بجاطور پر والدین کو بھی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ خود بچوں کی خوشنودی کی خاطر یہ لعنت ختم کرنے کے بجائے اسے جاری رکھنے میں ان کے ساتھ شریک ہو گئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب وہ خود اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ ان سے کہہ سکیں کہ فلاں کام برا ہے اسے چھوڑ دو یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کے جرائم عام ہو گئے ہیں غور کیا جائے تو والدین کی یہ بے بسی بلکہ بے حسی حد درجہ دوررس نتائج رکھتی ہے۔ وقت کی تیز رفتاری اور مال و دولت کے حصول کی اندھادھند دوڑ بلکہ دھکم پیل اور ذاتی مصروفیات نے انہیں اس سوچ سے بھی عاری کر رکھا ہے کہ ایسی فلمیں اور تھیٹر کی وڈیو بنانے والے کرائے پر دینے والے، گھر لانے والے اور گھر میں لانے پر خاموشی اختیار کرنے والے سب کے سب اس معاشرے کا حصہ ہیں اور اگر والدین اپنے بچوں کو اس بے راہ روی سے روکنے پر تیار نہیں ہیں تو پھر ان کی آواز میں زور کہاں سے آئے گا؟ ایسا زور جس کے لگانے کیلئے اخلاقی طاقت کی پشتی ضروری ہوتی ہے یاد رکھیئے ہمارے اعلی اخلاق کی بنیاد ہمارا عمل صالح ہے اگر والدین اس بنیاد کی راستی پر توجہ نہیں دیں گے تو اولاد کے کردار کی اساری کس طرح ممکن ہو سکے گی؟ بچوں کے ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں ان پر بگڑنے سنورنے کے اولین نقوش کون بنا رہا ہے؟ ان کے ذہن مسموم ہو رہے ہیں تو ان کا تریاق کہاں سے آئیگا؟ کون دے گا ہمیں یہ تریاق؟ کیونکہ ہم جن مغربی ہاتھوں سے یہ زہر درآمد کر رہے ہیں وہ اس کا تریاق کیوں دیں گے؟ دراصل مغرب نے ہر سطح پر مسلمانوں کو تباہ کر دینے کی فتح کی امید میں ہمیشہ سے بازی کے باون پتوں میں سے ایک ایسا پتہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے جس کے سبب ہمارے بچے اپنے مذہب سے غافل ہو سکیں۔ بہرحال قارئین کرام کہنا یہ ہے خدارا والدین اپنی اخلاقی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے اپنی اولاد کا کڑا محاسبہ کریں گھروں میں اور گھروں سے باہر ان کے معمولات اور مصروفیات پر نظر رکھیں ان کے ہاتھوں میں موبائل اور ریموٹ کنٹرول ہرگز نہ دیں بچوں کو دین و مذہب سے آشنا رکھنے کیلئے والدین خود عبادات کی پابندی کریں جبکہ ان کو صحت مند تفریح کی طرف راغب کرنے کیلئے کھیل کود کی سرگرمیوں، اصلاحی کتب کے مطالعے اور روحانی اقدار کے احیاء کیلئے مصروف کر دیا جائے یہی نئی نسل کی سنوار کا واحد فارمولا ہے جس پر عملدرآمد کروا کر ان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکتا ہے ورنہ پوری دنیا اخلاقی اقدار کے زوال اور روحانی انتشار و خلفشار کا ایسا سمندر بن چکی ہے جس میں ہماری حیثیت بھی ایک لہر کی سی ہو گی۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور قیامت تک ہمارا منفرد مذہبی ا ور قومی تشخص قائم رہے۔ (آمین)
موبائل، میڈیا، انٹرنیٹ کی یلغار اور نئی نسل … ’’لمحہ فکریہ‘‘
Apr 10, 2018