مکرمی! میں 1946 کا مسلم لیگی ہوں۔ 1999 سے لے کر تادم واپسیں امام صحافت ترجمان نظریہ پاکستان کی صحبت میں پاکستان کی محبت کو ثقیل کیا مشفق مہربان مجید نظامی صاحب نے مجھے تحریک پاکستان میں کار ہائے نمایاں کے اعتراف کے طور پر گولڈ میڈل عطا فرمایا۔ جب بھی پاکستان کے ناموس پر کوئی حرف آتا ہے بے بسی تڑپ جاتی ہے۔ اسلام آباد میں جوزف نامی امریکن اتاشی نے شراب کے نشے میں دھت ٹریفک کا اشارہ توڑ کر ایک بے گناہ پاکستانی کو روند ڈالا۔ پولیس نے گاڑی کو قبضہ میں لے لیا۔ لیکن گاڑی چلانے والے کو سفارتی استثنیٰ دیکر چھوڑ دیا۔ ابھی چند دن پہلے ہمارے وزیراعظم کو امریکی ہوائی اڈہ پر کپڑے اتروا کر جامہ تلاشی ہی۔ انہیں تو کوئی سفارتی استثنیٰ نہ دیا گیا۔ ابھی قوم ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ نہیں بھولی۔ اس نے دن دیہاڑے چلتی ٹریفک میں ایک بے گناہ پاکستانی کو گولی مار کر جاں بحق کردیا پھر گاڑی بھاگتے ہوئے غلط راستہ پر جاتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والی گاڑی کو روند ڈالا۔ متعدد بیگناہ لوگ زخمی ہوئے۔ارباب اقتدار نے اسلامی قانون دیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مقتول کے ورثاءکو چند ڈالر اور چند امریکن ویزے دلوا کر معاملہ رفع دفع کروادیا۔ قاتل امریکن ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کی آزادی کا مذاق اڑاتا ہوا فضاﺅں میں گم ہوگیا۔ 1943 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران انگلستان کی شاہی فوج کا کانوائے جب شہری آبادی میں سے گزرتا تو یہ ہر شہری کا فرض تھا کہ وہ فوجی کانوائے کو گزرنے کا راستہ دے اور آگے سے ہٹ جائے۔ اگر کوئی ہندوستانی شاہی فوج کی کانوائے کے آگے آکر کچلا جاتا تو اسکی ذمہ داری کچلنے والے فوجی پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی ذمہ داری مقتول کی ہوتی۔ آج ہم انگریزوں کی بجائے امریکیوں کے غلام ہیں۔
کتنی یادیں غم امروز سے جاگ اٹھتی ہیں گرتے پتوں سے بہاروں کا خیال آتا ہے
(ظفراللہ خاں، کارکن تحریک پاکستان لاہور)