سینیٹ مکمل ہونے کے بعد 276واں سےشن نئے چےئرمےن صادق سنجرانی کی صدارت مےں شروع ہو گےا نےا چےئرمےن ، نئی قائد حزب اختلاف سب کچھ نےا ہی تھا۔ صادق سنجرانی کو سےنےٹ کا اجلاس چلانے مےں اےک نئے چےئرمےن کی حےثےت سے جو مشکلات پےش آ سکتی ہےں وہ پہلے روز نظر آگئےں ققدن قدم پر چےئرمےن کو سےنےٹ سےکرےٹرےٹ سے مدد لےنی پڑتی رہی بعض اوقات تو اےوان مےں تما شا لگتے لگتے رہ گےا اےوان مےں کہ حکومت کی طرف سے چےئرمےن سےنےٹ کے لئے گرمجوشی دےکھنے مےں نہےں آئی قائد اےوان راجہ محمد ظفر الحق چےئرمےن کو نظر انداز کرتے رہے اےسا دکھائی دےتا ہے حکومت اور چےئرمےن کے درمےان مشکل سے ہی تعلقات کار قائم ہوں گے حکومت بھی اپنی مدت پوری ہونے تک وقت گذارے گی پےر کو سےنےٹ مےں پرائےوےٹ ممبرز ڈے تھا اجلاس نجموعی طور پر ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہا پہلے روز ہی 10منٹ کی تاخےر سے اجلاس شروع کرنے کی رواےت شروع کر دی گئی بہر حال اہم بات ےہ ہے چےئرمےن نےسےنےٹ کے پورے اجلاس کی صدارت کی چےئرمےن نے اےوان مےں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان اپوزیشن بینچ الاٹ کر دیے گئے قوم پرست ارکان سینیٹ اپنے قائد سینیٹر عثمان کاکڑ کی قیادت میں اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہو گئے تاہم انہوں نے آزاد اپوزیشن کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے اور گذشتہ روز کالے دھن کو سفید کرنے کے صدارتی آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ احتجاج اور واک آو¿ٹ میںقوم پرست آزاد اپوزیشن گروپ نے ساتھ نہیں دیا ۔سینیٹر عثمان کاکڑ کو اپوزیشن کی طرف پہلی قطار میں نشست الاٹ کی گئی ہے عقب میں انکی جماعت کے دیگر چار ارکان کو نشستیں الاٹ کی گئی ہیں سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اپوزیشن گروپ سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ آزاد اپوزیشن کی حیثیت سے کردار ادا کریں گے سینیٹ اجلاس کی کاروائی کے دوران اپوزیشن لیڈر شیری رحمان، امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کو” سراج بھائی سراج بھائی“ کہہ کر مخاطب کرتی رہےں اجلاس میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی طرف سے اہم امور زیر بحث لائے گئے تھے ان میں ایمنسٹی سکیم اور پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کے معاملات اور مسئلہ کشمیر پر قرارداد بھی شامل ہے اپوزیشن لیڈر جماعت اسلامی کے موقف کی حمایت کرتی رہیں ۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے افغان علاقے قندوز میں مدرسہ پر جنگی طیاروں کی بمباری میں سو سے زائد بچوں کی شہادتوں کے واقعہ کے خلاف قرارداد مذمت لانے کی اجازت نہیں دی اس معاملے پر جمعیت علماءاسلام (ف) کے رہنما مولانا عطاءالرحمان نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ پورے ایوان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشتگردی کے خلاف کشمیریوں سے یکجہتی کااظہار کیا گیا ہے ہم مکمل طور پر اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہیں بھارتی دہشتگردی کی طرح امریکی دہشتگردی کی بھی ایوان مذمت کرے جو کہ جسکا حال ہی میں افغان علاقے قندوز میں کیا گیا ہے چیئرمین سینیٹ نے فی الوقت انہیں قرار داد کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ ابھی کشمیر کے معاملے پر بات ہو رہی ہے اور یہی بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ ہو ا تھا۔اپوزیشن جماعتوں نے کالے دھن کو سفید کرنے کی ایمنسٹی سکیم کے بارے میں صدارتی آرڈیننس کو آئین و قانون کے منافی قرار دے دیا یہ آرڈیننس پارلیمینٹ ، کابینہ کو نظر انداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روگردانی کی گئی ہے اس اےشو پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے احتجاجاً واک آﺅٹ کر دےا اپوزیشن نے ےہ معاملہ ایوان کی مجلس قائمہ برائے استحقاق اور قواعد و ضوابط کے سپرد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے واضح کیا ہے کہ آرڈیننس کی کابینہ سے پیشگی منظوری لینا ضروری تھی جبکہ قومی اسمبلی سینیٹ کے اجلاس طلب کئے جا چکے تھے ان حالات میں آرڈیننس جاری نہیں ہو سکا تھا حکومت کو آرڈیننس کو واپس لے اور ضابطہ کار کے تحت قانون کا بل لیکر آئے کیونکہ ٹیکسوں میں ردوبدل پارلیمینٹ کا اختیار ہے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی ریونیو ہارون اختر نے واضح کیا ہے کہ آرڈیننس آئین اور ضابطہ کار کے تحت جاری کیا گیا ہے ایک طرف اپوزیشن ٹیکسوں کی شرح میں کمی کا مطالبہ کر رہی ہے دوسری طرف حکومت کی جانب سے یہ اقدام اٹھانے پر اسکے خلاف واک آﺅٹ کےا جارہا ہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اس معاملہ پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکے ایوان میں مسئلہ کشمیر پر بحث مکمل ہو ئی تو سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے نکتہ اعتراض پر متذکرہ معاملہ اٹھایا اور کہا کہ آٹھ اپریل کو رات کی تاریکی میں کالے دھن کو سفید کرنے کا صدر نے آرڈیننس جاری کر دیا جبکہ صدر مملکت قومی اسمبلی سینیٹ کے اجلاس بھی طلب کر چکے تھے اس طریقے سے آرڈیننس جاری کرنے کی آئین میں کوئی حیثیت اور گنجائش نہیں ہے رولز کے تحت کابینہ میں بحث ضروری تھی رولز آف بزنس کے قاعدہ 16کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں مےاں رضا ربانی نے کہا کہ کس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے کابینہ میں آرڈیننس کی کاپی تقسیم نہیں ہو بلکہ اسکی اصولی منظوری ضروری تھی وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ وقت کم تھا پارلیمینٹ کا استحقاق مجروح نہیں کیا گیا جب یہ آرڈیننس سینیٹ میں پیش ہوگا تو بحث ہو سکتی ہے اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے بھی مےاں رضا ربانی کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ ہم یہاں ٹی اے ڈی اے لینے نہیں آتے چار سال سے حکومت کی طرف سے دونوں ایوانوں کے اختیار اور توقیر کو پامال کیا جا رہا ہے وزیر اعظم کی طرف سے سینیٹ کو حقارت سے ٹریٹ کیا گیا سینیٹر سراج الحق نے ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حرام کی دولت کو جائز قرار دلوانے کے لیے بھی ناجائز طریقہ کار اختیار کیا گیا سوال یہ ہے کہ کیا حرام کی دولت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے اس معاملے پر اپوزیشن کی جن جماعتی نے واک کےا ان مےں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر شامل ہیں احتجاجاً واک آﺅٹ کر گئے بعد ازاں سینیٹر مشاہد اللہ خان انہیں منا کر ایوان میں لے آئے ۔سینیٹ(ایوان بالا)نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر بھارتی افواج کے مظالم اور ریاستی جبر کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔قرار داد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر اٹھانے کےلئے خصوصی نمائندہ مقرر کرے، حکومت مسئلہ کشمیر کےلئے اقوام متحدہ کی طرف سے خصوصی ایلچی کا تقرر کرانے کےلئے ضروری اقدامات کرے، پیر کو سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر شیری رحمان نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد کا مقصد ہے کہ اس ایوان سے ایک پیغام جانا چاہیے کہ کشمیر کے معاملے پر ہم سب ایک ہیں،