کوئٹہ ( بیورورپورٹ +این این آئی+ صباح نیوز) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بلوچستان میں سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے استفسار کیا کہ آپ نے لوگوں کو پانی فراہم کرنا ہے، یہ بتایا جائے بلوچستان میں کہاں کہاں اور کتنے ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کا کہنا تھا اس میں کوئی شک نہیں بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، ہماری حکومت کے پاس وقت اور وسائل دونوں کی کمی ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری نصیب اللہ بازئی نے کہا سب سے بڑا مسلئہ وفاق سے فنڈز کا نہ ملنا ہے، جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ اپنے وسائل کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے وزیراعلی بلوچستان کو صحت تعلیم اور پانی کے حوالے سے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا وزرا ئے اعلیٰ نے اپنے دور میں انتظامات کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کیے؟۔ عدالت نے حکم جاری کیا ان تمام وزرائے اعلی جنہوں نے یہاں گزشتہ 4سال کے عرصے میں حکمرانی کی ہے انہیں طلب کریں۔ عدالت میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر صحت میر ماجد آبڑو اپنا موقف دینے کے لیے پہنچے۔ بلوچستان کے سیکرٹری تعلیم نور الحق بلوچ نے عدالت کو بتایا صوبے میں تقریباً 10 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا حکومت ان بچوں کو سکولوں میں بھرتی کرنے میں کیوں ناکام ہے؟۔ سیکرٹری تعلیم نے دعوی کیا کہ صوبے میں تقریباً 26 لاکھ بچے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔سپریم کورٹ نے دو سابق وزرا ئے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ خان زہری کو صوبے میں انتظامی امور کو بہتر بنانے میں ناکامی کی وجوہات بتانے کے لئے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔سیکرٹری صحت بلوچستان صالح نثر نے عدالت کو بتایا اگلے 10 دنوں میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کی بہتری کے لیے پالیسی تشکیل دے دی جائے گی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہزارہ کمیونٹی کے وفد سے ملاقات کی۔ملاقات کے دوران چیف جسٹس نے ہزارہ کمیونٹی کے مسائل کو قانون کے مطابق حل کرانے کی یقین دہانی کرائی۔صباح نیوز کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور ثنااللہ زہری کو آج (منگل کو) عدالت طلب کرلیا جبکہ اپنے ریمارکس میں کہا بلوچستان میں گورننس کے لیے تین وزرائے اعلی آئے انہوں نے عوام کے لئے کیا کیا؟ یہاں آکر بتائیں۔سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کوئٹہ میں سرکاری ہسپتالوں، سکولوں اور کالجوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کی جو عوامی شکایات پر کی گئی۔کیس کی سماعت کے سلسلے میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری صحت، سیکرٹری تعلیم اور دیگرحکام عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رﺅف عطا نے صوبائی حکومت کی جانب سے کیسز کی پیروی کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، نجی کالجوں میں بچوں سے 20 سے 25لاکھ روپے لئے جاتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہاں یہ بزنس تو نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بچوں کو 2کروڑ کی رقم واپس ہو۔ چیف جسٹس نے میڈیکل کالج کے لیے 8لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس ری فنڈ کرنے کا حکم دیا۔ ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کیسی ہے۔ ہم نے اس سے متعلق بھی ایس او پی دی ہے۔ میں کچھ ہسپتالوں کا دورہ بھی کرنا چاہوں گا۔ بلوچستان ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا مریضوں کا کوئی علاج نہیں کررہا۔ 21 فیصد نان ڈویلپمنٹ بجٹ ہے اور صرف 6فیصد ترقی پر خرچ ہوتا ہے۔ بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ ہسپتال نہیں، ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیرانتظام ہے۔سیکرٹری صحت کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں نے پیدا کرنے ہیں۔ آپ وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلائیں ان وزرائے اعلی کو جو یہاں 4 سال اقتدار میں رہے۔ صوبے کے عوام کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ یہاں آکر بتائیں۔ گورننس کے لئے 3وزرائے اعلی آئے، انہوں نے کیا کیا؟عدالت نے آج (منگل کو) سابق وزرائے اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنااللہ زہری کوطلب کرلیا۔چیف جسٹس نے کہا صحت کامسئلہ بلا بن گیا ہے، ممکن نہیں 500ارب روپے ایک دن میں مل جائیں۔ اس کو ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کے طور پر نہ لیں۔ اپنی خامیوں کودور کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں، پالیسی ابھی منظور نہیں ہوئی، ماضی کی بجائے آگے دیکھیں اور مسئلہ حل کریں۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے مکالمہ کیا حکومت کے پاس چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ پھر کون پالیسی منظور کرے گا؟ ہمارا مقصد اکھاڑ پچھاڑ کرنا نہیں، ضرورت ہے عوام کو سہولت ملے، آئین نے ہمیں پابند کردیا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کےلئے اپنا فرض نبھائیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کراچی میں پانی کے مسئلے پر وفاق نے ہمارے نوٹس کے بعد فنڈز دیئے، مسئلہ حل ہوگیا۔علاوہ ازیں چیف جسٹس نے سول ہسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی ان کے ہمراہ تھے۔چیف جسٹس نے سول ہسپتال میں صفائی کی صورتحال پر اظہار برہمی کیا اور غفلت برتنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کے احکامات جاری کئے۔ عوامی مسائل پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا آئین کے آرٹیکل199 اور 184 کے تحت عدالت کو بنیادی حقوق کے استحصال پر مداخلت کا حق حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجوبھی عدالت کے رو برو پیش ہوئے چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سے استفسار کیا کہ کیا صحت ،تعلیم، پانی کی قلت کے حوالے سے کیا کوئی پالیسی موجود ہے؟ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے عدالت کو بتایا کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دے رہے ہیں بلوچستان میں گورننس کے لئے تین وزرائے اعلی آئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ صحت کے شعبے میں وفاق سے جو مدد چاہئے ہمیں بتائیں۔ ماضی میں کیا ہوا اس کو چھوڑیں اور دیکھیں آگے کیا کرنا ہے۔ اگر سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھے گا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ہڑتال پر بیٹھے ڈاکٹرز کے کیمپ کا دورہ کیا اور ان کے مطالبات سنے جس کے بعد چیف جسٹس کی یقین دہانی پر ڈاکٹرز نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز کے جوجائز مطا لبات ہیں انہیں تسیلم اور جو ناجائز مطالبات ہیں انہیں ابھی رد کرتا ہوں۔جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ صوبائی حکومت 4 روز میں ڈاکٹرزکے جائز مطالبات پر عملدآمد یقینی بناتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کرے۔انہوں نے درخواست وزیراعلیٰ کو دے دی‘ وزیراعلیٰ نے جیب سے کچھ رقم نکال کر خاتون کی مدد کی۔ بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بلوچستان بار کونسل‘ کوئٹہ ڈسٹرکٹ بار کونسل کی جانب سے دئیے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے مجھے ذاتی تشہیر کا کوئی شوق نہیں ہمیشہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ازخود نوٹس لئے، آج تک بلوچستان سے کوئی بھی عوامی مفاد کی درخواست موصول نہیں ہوئی بلوچستان میں گورننس کا حق یہاں کے مقامی لوگوں کا ہے انہیں یہ حق دیا جانا چاہئے، ساتھ ہی صوبے کے لوگوں کو اپنی توجہ تعلیم کی طرف مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا میں کسی قسم کی وضاحت نہیں دے رہا لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں میں نے آج تک جتنے بھی اقدامات کئے وہ نیک نیتی سے کئے جتنے بھی از خود نوٹسز لئے وہ بنیادی حقوق کی علمبرداری کیلئے تھے اور یہ میرا فرض ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے، عدلیہ پاکستان کے عوام کے حقوق کی محافظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت، پانی، خوراک کے شعبوں میں جتنے بھی ازخود نوٹس لئے وہ عوام کی بہتری کیلئے تھے اور میں مطمئن ہوں جتنے بھی اقدامات کئے اس میں کسی قسم کی جانبداری نہیں تھی۔ انہوں نے کہا وفاق میں جتنے بھی ٹربیونل ہیں ان میں بلوچستان کی بھرپور نمائندگی ہوگی اور وہاں کے ججز کو بھی کوئٹہ بھیجا جائے گا خضدار اور لورالائی بینچز کی منظوری دیدی ہے اب یہ معاملہ حکومت کے پاس ہے امید ہے جلد ہی ججز کی تقرری عمل میں لائی جائے گی اور میں وعدہ کرتا ہوں ان میں سے ایک بینچ کا افتتاح میں خود کروں گا۔ بلوچستان سے میری خصوصی محبت ہے مجھے اس بات پر دکھ ہوتا ہے بیورو کریسی میں باہر کے لوگ آکر یہاں پر گورننس کرتے ہیں یہ صوبے کے لوگوں کا حق ہے وہ خود گورننس کریں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے صوبے کے لوگوں نے تعلیم پربھی توجہ نہیں دی اب وقت آگیا ہے تعلیم پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے جسٹس دوست محمد کھوسہ کو فل کو رٹ ریفرنس نہ دینے کے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا جسٹس دوست محمد کھوسہ کے لئے انتہائی پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا لیکن انہوں نے دو دن قبل ذاتی وجوہات کی بناءپر انکار کیا مجھے نہیں معلوم انہوں نے کن وجوہات کی بناءپر ریفرنس لینے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کا معاملہ اس لئے عدالت میں سنا تاکہ کسی کو یہ تاثر نہ جائے ہم نے اپنی برادری کے لوگوں کے ساتھ جانبداری کی ہے۔ بلوچ اپنے آپ کو محروم نہ سمجھیں جسٹس سردار آصف کھوسہ بلوچوں کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا میں وضاحت دینے کا پابند نہیں اور نہ ہی کوئی وضاحت پیش کر رہا ہوں۔ جتنے اقدامات اور سوموٹو ایکشن لئے بنیادی حقوق سے متعلق تھے۔ سوموٹو ایکشن کا مقصد جانبدار یا ذاتی مطلب کیلئے نہیں تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی سے متعلق پٹیشن لگانے میں قطعاً کوئی بدنیتی نہیں تھی ہم عوام کو حقوق دلانے اور فرائض میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔چیف جسٹس نے ہزارہ برادری کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ان کے مسائل کو قانون کے مطابق حل کیا جائیگا۔
چیف جسٹس