واجد ضیا نے 7 مرتبہ مو¿قف بدلا پکڑے جائینگے، خواجہ حارث نیب پراسیکیوٹر سے تلخی جو کہا وہ لکھیں، جج سے مکالمہ

Apr 10, 2018

اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت میں استغاثہ کے گواہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءپر نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح مکمل نہ ہو سکی، جرح آج بھی جاری رہے گی،گواہ واجد ضیاءنے جرح کے دوران بتایا تین اور 4 جولائی کی درمیانی شب دبئی جانے والی جے آئی ٹی کی ٹیم کے پاس سورس دستاویزات موجود تھیں، سماعت کے دوران خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پیش ہوئے۔ نیب کے گواہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءنے دوران جر ح خواجہ حارث کے سوال پر بتایا انڈیکس میں صرف ان دستاویزات کو ظاہر کیا گیا ہے جو دستخط شدہ ہیں اور مہر بھی ثبت ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں نواز شریف کے اقامے کی دو کاپیاں لگائی گئی ہیں، اقامے کی ایک کاپی پر گورنیکا انٹرنیشنل کے دستخط موجود ہیں، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرنے اعتراض اٹھایا قانون کے مطابق خواجہ حارث ان ایڈمیسیبل دستاویزات پر جرح نہیں کرسکتے۔ خواجہ صاحب ان سورس دستاویزات کی بات کر رہے ہیں جن پر ہم انحصار ہی نہیں کر رہے، ملزم نواز شریف کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا اعتراف کرچکے ہیں، کراس ایگزیمیشن کو متعلقہ حقائق تک محدود ہونا چاہئے، خواجہ حارث نے کہا میں صرف سورس دستاویزات کو ایڈمیسیبل نہیں کہہ رہا ۔ خواجہ حارث نے واجد ضیاءسے کہا آپ سات مرتبہ موقف بدل چکے ہیں، کہیں نہ کہیں پکڑے جائیں گے۔ ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل نیب نے اعتراض اٹھایا خواجہ حارث غیر ضروری سوالات پوچھ رہے ہیں۔ خواجہ حارث پہلے اپنے سوالات کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کریں، خواجہ حارث نے کہا کیا میں اپنا دفاع پراسیکیوشن کے سامنے ظاہر کر دوں، آپ کو پھر قطری شہزادے کو بھی بتانا چاہئے تھا، پھر قطری شہزادے کو سوالنامہ بھجوا دیتے، نیب پراسیکیوٹرنے کہا آپ پھر قطری شہزادے کو یہاں لے آتے ،آپ قطری شہزادے کو عدالت میں کیوں نہیں لائے، ہم نے کب روکا ہے؟ کیا آپ گواہ کو ہراساں نہیں کر رہے، لگتا ہے آپ سچ اگلوانا نہیں چاہتے، خواجہ حارث نے کہا لے آئیں گے لیکن ہم اپنا دفاع کیوں ظاہر کریں، جج صاحب ان کو آخر مسئلہ کیا ہے کیوں بار بار اعتراض اٹھا رہے ہیں، پراسیکیوٹر نے کہا ملازمت سے متعلق ملزم نواز شریف تسلیم کرچکا، کیا آپ ملازمت کی دستاویز ماننے سے انکار کرتے ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا جرح کے دوران 15مواقع پر خواجہ حارث نے سوالات کو دہرایا، جس پر خواجہ حارث نے کہا سچ نکالنے کے لئے مختلف طریقوں سے سوالات پوچھنے پڑتے ہیں، ٹرائل کی تاریخ میں پہلی بار سیلف ایڈڈ کی ٹرم استعمال کی جا رہی ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا آپ کا یہ کہنا کہ کہیں نہ کہیں پکڑے جائیں گے۔ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق گواہ کو غلطی پر مجبور کرنے کیلئے غیرضروری جرح نہیں کی جاسکتی، جو جرح خواجہ حارث کررہے ہیں اعلیٰ عدلیہ نے جرح کے اس طریقے کو رد کر رکھا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا خواجہ صاحب سچ نہیں اگلوا رہے صرف اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واجد ضیاءنے بتایا میں دستاویزات دیکھ کر یا کنفرم کر کے بتا سکتا ہوں۔ جس کے بعد عدالت نے واجد ضیا کو دستاویزات دیکھنے کی اجازت دے دی،جس کے بعد عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا،سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو واجد ضیاءنے کہا اقامہ والی دستاویزات سیریل نمبر 8کے بجائے 10پر لگی ہے،ہم نے صرف متعلقہ سورس دستاویزات لگائے، تمام سورس دستاویزات لگا دیتے تو ایک نیا والیم بن جاتا۔ خواجہ حارث نے کہا والیم نو میں کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق کسی دستاویز پر کیا گورنیکا کی مہر ہے، واجد ضیانے کہا کسی پر مہر نہیں لیکن صفحہ 135پر سورس لکھا ہے،صفحہ 141والی دستاویز بھی سورس والی ہے، خواجہ حارث نے کہا یہ دونوں دستاویزات آپ کو کس نے فراہم کیں، واجد ضیاءنے کہا ہمیں گورنیکا نے یہ دونوں دستاویزات فراہم کیں، خواجہ حارث نے پھر سوال کیا آپ کی جے آئی ٹی کی ٹیم دبئی کب گئی، واجد ضیاءنے کہا تین اور چار جولائی کی درمیانی شب یہاں سے ٹیم دبئی گئی، خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا جو ٹیم دبئی گئی اس کے پاس پہلے سے کوئی دستاویز تھی، واجد ضیاءنے کہا جی ہماری ٹیم کے پاس سورس دستاویزات موجود تھیں، خواجہ ھارث نے کہا کہ کیا والیم نو کے صفحہ 135اور 141کے سورس دستاویزات بھی ٹیم کے پاس موجود تھیں، واجد ضیاءنے کہا کہ صفحہ 141کی سورس دستاویزات جے آئی ٹی کی ٹیم کے پاس موجود تھیں، صفحہ 135والی دستاویز ٹیم کے پاس نہیں تھیں تاہم ایک اورٹریڈنگ لائسنس کی کاپی موجود تھی، خواجہ حارث نے کہا کہ وہ ٹریڈنگ لائسنس کس سال کا تھا؟ واجد ضیاءنے کہا کہ ایک سال 2006ءکا تھا اور دوسرا 2013ءکا تھا، خواجہ حارث نے کہا پہلے آپ نے ایک لائسنس بتایا تھا اب دو بتا رہے ہیں، جس پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرنے کہا کہ سال الگ الگ ہیں لیکن لائسنس ایک ہی ہے۔آن لائن کے مطابق خواجہ حارث نے دوران جرح جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جو میں نے کہا ہے وہ لکھیں فیصلہ آپ جو مرضی کریں ریکارڈ خراب نہیں کرنے دوں گا۔
خواجہ حارث

مزیدخبریں