دورِ حاضر کا آئن سٹائن نہ سن سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے نہ ہاتھ پاؤں کو حرکت دے سکتا ہے لیکن لوگ اسے آئن سٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان کہتے ہیں ۔ اس کا نام سٹیفن ہاکنگ ہے جسے ڈاکٹروں نے اکیس سال کی عمر میں بتا دیا تھا کہ وہ دو تین سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا لیکن وہ جسمانی معذور مگر باہمت شخص 76 سال تک نہ صرف زندہ رہا بلکہ ایسے شاہکار تخلیق کئے جس نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ وہ بالآخر اس بلیک ہول میں داخل ہو گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ہاکنگ کی دلچسپی کا موضوع کائنات میں موجود بلیک ہولز ہی تھے۔ دنیا بھر سے اسے لیکچر کیلئے مدعو کیا جاتا تھا وہ جدید قسم کی ویل چیئر پر بیٹھ کر اپنی زبان ہلائے بغیر حاضرین کے سوالات کا جواب دیتا۔ اسکی ویل چیئر پر ایک جدید قسم کا کمپیوٹر نصب ہے جس میں سے ایک تار نکل کر ہاکنگ کے دائیں گال سے چسپاں رہتی ہے وہ اپنے گال کو حرکت دیتا اور کمپیوٹر بولنا شروع کر دیتا جو وہ سوچتا کمپیوٹر وہی بولنے لگتا۔ وہ بتاتا ہے کہ بلیک ہول کس طرح وجود میں آتے ہیں۔ ہاکنگ کے مطابق بلیک ہول تب بنتے ہیں جب کوئی فلکی جسم اپنی ثقلی کشش کی وجہ سے اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے اور پھر وہ کائنات میں بلیک ہول کی مانند رہنے لگتا ہے۔ اس معروف برطانوی سائنسدان نے اپنی آخری نصیحت میں خبردار کیا ہے کہ انسانوں کو کسی بھی اجنبی مخلوق سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ انسانوں کے علاوہ یقیناً کوئی نہ کوئی مخلوق کہیں آباد ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ انسان کے ایسی مخلوق سے رابطے بنی نوع انسان کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ ایسی مخلوق انسانوں سے زیادہ چالاک ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ مخلوق زمین پر آ کر ہمارے سارے وسائل چھین لے۔ اگر ایسی مخلوق زمین پر آ گئی توانسانوں کے ساتھ وہی ہو گا جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کی آبادی کے ساتھ ہوا تھا۔ جو یقیناً اچھا نہیں تھا۔ وہ بار بار کہتا رہا ہے کہ انسانوں کو ایسی مخلوق سے دور رہنا چاہئے۔ سائنسدانوں نے ضد میں ایسے مشن بھیجے ہیں جن پر انسانوں کی تصاویر کے ساتھ زمین تک پہنچنے کے نقشے بھی تھے۔ اس کے ساتھ ممکنہ طور پر دوسرے سیاروں پر آباد مخلوق کے ساتھ رابطہ کرنے کی نیت سے خلا میں سگنل بھیجے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مخلوق تو کہیں موجود ہے اصل مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کیسی ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا کہ کائنات ابھی نامکمل ہے اور دنیا میں نئے سیارے جنم لے رہے ہیں‘‘ اسی تھیوری کو سٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا۔ اس کائنات میں انہوں نے ایسا بلیک ہول دریافت کیا جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لے رہے ہیں اور اس بلیک ہول میں ایسی شعائیں دریافت کیں جو کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں جو ہاکنگ ریڈایشن کہلاتی ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ نے مستقبل کے بارے میں 5 اہم پیش گوئیاں بھی کی تھیں جوکچھ یوں ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں پرتگال میں ہونے والی ایک ٹیکنالوجی کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کیلئے نہایت ہی خطرناک چیز ہے کیونکہ مستقبل میں یہ انسانی دماغوں کی حدود کو پار کرتے ہوئے انسانیت پر غالب ہو جائیگی۔ سٹیفن نے ایک سائنس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ خلائی مخلوق سے انسان کا رابطہ ہونے کے امکانات انتہائی معدوم ہیں لیکن حال ہی میں خلائی شٹل کی تصاویر سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات بہت بڑی ہے اور اس میں ہزاروں لاکھوں سیارے موجود ہیں ممکن ہے ان میں سے کسی پر زندہ موجود ہوں۔ سٹیفن ہاکنگ نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ خلائی مخلوق انسانیت کیلئے خطرناک ہو سکتی ہے۔ خلائی مخلوق اپنے سیارے کے تمام انرجی ذرائع استعمال کرکے دوسری دنیا کا رخ کر سکتے ہیں۔ ہاکنگ کا مؤقف ہے کہ یہ دنیا اگلے دس ہزار سال میں ختم ہو جائیگی جبکہ انسانوں کو اپنی بقا کیلئے دوسرے سیاروں کا رخ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلی انسانیت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمیں اس کو جلد از جلد روکنا ہو گا۔
سٹیفن ہاکنگ ایم ایس سی تک عام درجے کا طالب علم رہا کھیلنے کودنے‘ سائیکل چلانے کا شوق تھا۔ فٹ بال‘ کشتی رانی کا شوق تھا۔ 1963 ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا کہ وہ ایک دن سیڑھیوں سے نیچے پھسل گیا انہیں ہسپتال لایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ دنیا کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہے۔ اس بیماری کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ اس بیماری کے انکشاف سے پہلے سائنسدان دماغ کو انسانی جسم کا ڈرائیور سمجھتے تھے لیکن بیسویں صدی میں ’’اے ایل ایس‘‘ کا پہلا مریض سامنے آیا تو پتہ چلا کہ انسانی زندگی کا مرکز دماغ نہیں بلکہ دل ہے۔ لہٰذا دنیا کے تمام مذاہب کے مطابق انسان کو دماغ کی بجائے دل پر توجہ دینی چاہئے۔ اکیس سال کی عمر میں سٹیفن اس بیماری کا شکار ہوا اور 1965 ء تک وہ ویل چیئر تک محدود ہو گیا۔ صرف پلکیں ہلانے والے شخص کو ڈاکٹروں نے خدا حافظ کہہ دیا تھا لیکن سٹیفن نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واحد شخص ہے جو اپنی پلکوں سے بولتا رہا اور بے شمار کتابیں لکھیں لیکن اسکی کتاب ’’بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ برپا کر دیا۔ یہ کتاب دنیا بھر میں ناول اور ڈرامے کی طرح خریدی گئی۔ 1979 ء سے 2009 ء تک ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کے اس عہدے پر فائز رہا جس پر کبھی مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن فائز تھا۔ تقریباً تیس سال ہاکنگ ‘ ٹاکنگ کمپیوٹر کے ساتھ جڑا رہا اور نئے نئے نظریات سے اس دنیا کو روشناس کرایا اور بالآخر 76 سال کی عمر گزارنے کے بعد دور حاضر کا افلاطون‘ آئن سٹائن 14 مارچ کو ایسے بلیک ہول میں داخل ہو گیا جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔