نواز شریف کی ضمانت اور علاج

Apr 10, 2019

ڈاکٹر اے آر خالد....

نواز شریف کی سپریم کورٹ سے علاج کے لیے چھ ہفتے کی ضمانت پر ن لیگی لیڈروں اور ان کی دیکھا دیکھی کارکنوں نے جس جوش اور خوشی کا اظہار کیا ہے شاید یہ عارضی رہائی پر ہونے والی خوشی اور جو زیادہ ہی آف پرپوشن ہو گیا ہے۔ جشن فتح منانے، مٹھائیاں تقسیم کرنے، حق کی فتح اور سچائی کی جیت کی باتیں کرنے والوں کو روکنے ٹوکنے والا اس لیے کوئی نہیں کہ جنہیں روکنے اور ٹوکنے کی ذمہ داری ادا کرنا تھی وہ اس جشن میں بھی ’’قائدانہ کردار‘‘ ادا کرنے میں اپنی خود ساختہ لیڈر شپ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر ہوشمندی کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ عارضی ریلیف جو سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کودیا گیا ہے نواز شریف سمیت پوری ن لیگی قیادت کے لیے ایسا امتحان ہے جس سے سرخروئی میں بھی انہیں عبرت کا سامان اکٹھا کرنے کے دشوار گزار دن دیکھنے پڑیں گے اور سہولت میں وقت ضائع کر کے یا اصل مسئلہ کو نظرانداز کر کے زیادہ سبکی برداشت کرنے کا خطرہ مزید پانچ ہفتے کے لیے سر پر منڈلاتا رہیگا کیونکہ اس کا نتیجہ نکلنے کے لیے وقت کا تعین پہلے ہی ہو چکا ہے اس میں نہ توسیع ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی فرسٹریشن کی زد میں آ کر یا حالات و واقعات کو دیکھ کر وقت سے پہلے نتیجہ کا اعلان نہیں ہو سکتا۔
ن لیگ کی قیادت کے لیے اس سے بڑا امتحان شاید پہلے کبھی نہیں آیا۔ عملاً ان سے پروپیگنڈا کرنے کے لیے میسر سارے آلات اور وسائل چھن چکے ہیں۔ سیاسی الزام تراشی کے لائوڈ سپیکروں کی بیٹری ناکارہ ہو چکی ہے۔ ان کے پاس ایک سے زیادہ آپشن اختیار کر کے حکومت یا اداروں کو دبائو میں لانے کی سہولت باقی نہیں رہی۔ ان ٹھوس حقائق کی طرف نہ ن لیگ کی قیادت اور ان کے اندھے حامیوں کا دھیان گیا اور نہ ہی نواز شریف کو ملنے والی اس عارضی رہائی پر سیخ پا ہونے عدلیہ اور معزز ججوں کو صلٰوتیں سنانے اور اسے نواز شریف کی بہت بڑی فیور قرار دینے والے کوتاہ فہم اور بے بصیرت مخالفین نے اپنے تعصب کی عینک کے شیشے صاف کر کے صحیح صورتحال دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ تو ضمانت کیلئے کی جانے والی درخواست کے مسترد ہونے اور یہ عارضی ریلیف نہ ملنے پر ہی قانون کی حکمرانی سمجھ رہے تھے اور ایسا عدل ہونے کو ہی اپنے لیے ریلیف دیکھ رہے تھے۔ پتہ نہیں یہ جہالت کا کرشمہ ہے یا ذاتی ، گروہی اور سیاسی تعصب کا نتیجہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں اصل وطن کی غالب اکثریت اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر یا اپنی خواہش کے مطابق کوئی کام نہ ہونے پر حقائق و واقعات کو نظرانداز کر کے نکتہ چینی اور الزام تراشی پر اتر آتی ہے اور اس جہالت کی وجہ سے معقولیت سے فوری اور مسلسل ربط ختم کرکے نامعقول تبصروں ا ور یادہ گوئی کو اتنی وسعت مل چکی ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس وبا کو اتنا پھیلا دیا ہے کہ اس سے شفا کی کوئی ویکسین اب نہ کسی لیڈر کے پاس ہے نہ سیاستدان کے پاس نہ کسی پیر فقیر یا پادری کے پاس اور نہ کسی دانشور کے پاس کیونکہ ان تمام حوالوں سے جانے والے خود اپنے اس حوالے کی قدر و منزلت بھی نہیں جانتے اپنے مقام کو بھی نہیں پہچانتے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا نہیں کرتے یہ ساری تقسیم خود ساختگی اور خود فریبی کی وجہ سے ہے اس لیے اس کا نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگر جشن منانے والے نواز شریف کے بے بصیرت حامی اور نکتہ چینی کرنے والے اس کے خواہ مخواہ کے مخالف تھوڑی سی عقل استعمال کر کے اپنا ردعمل دیتے تو نہ مٹھائیاں تقسیم ہوتیں، نہ بھنگڑے ڈالے جاتے نہ عدلیہ کو برا بھلا کہا جاتا نہ خفیہ سازشوں کا ذکر ہوتا کیونکہ یہ ہوشمندی حامیوں اور مخالفین دونوں کو ایک پیج پر لے آئی اور وہ ڈیڑھ مہینہ انتظار کر کے اپنے تبصرے، وسوسے، خوشی ،غصہ سبھی کو کسی اور وقت کے لیے بچا کر رکھ لیتے۔ نواز شریف کے حامی اور مخالف اس حقیقت سے تو اتفاق کرینگے کہ انہیں ڈیڑھ مہینے کی مہلت ملی ہے اور یہ مہلت ملنے کی وجہ ان کی وہ بیماری ہے جس کے سبب انہیں جیل سے ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ یہ استدعا منظور ہو گئی ہے۔ یہ بھی دونوں تسلیم کریں گے کہ اس ڈیڑھ مہینہ میں نواز شریف کو ملک کے جس ہسپتال میں جا کر علاج کراناچاہئے وہاں جا کر علاج کرانے کی آزادی ہے انہیں باہر جا کر علاج کرانے کی سہولت اس چھ ہفتوں کی رہائی میں نہیں اس کی وجہ خواہ یہ ہو کہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے شخص نے ملک میں ا یک دو ہسپتال تو ایسے ضرور بنوائے ہونگے جہاں ہر قسم کی بیماری کا علاج ہو سکے اور اگر ایسا نہیں تو بھی انہیں ملک کے انہی ہسپتالوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا جہاں سے باقی پاکستانی علاج کراتے ہیں اور اپنی اس انتظامی کوتاہی یا بے حسی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اس پر بھی دونوں حامی اور مخالف متفق ہونے چاہئیں کہ اگر نواز شریف کو ان چھ ہفتوں میں کسی سیریس بیماری میں مبتلا نہ ہونے کی کلین چٹ مل گئی تو وہ چھ ہفتوں کے بعد ضمانت کی مدت ختم ہونے پر دوبارہ جیل چلے جائیں گے اور یہ کہ وہ جیل جاکر وبارہ اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر ہسپتال میں داخل ہونے یا مزید ضمانت حاصل کرنے کی آپشن کھو بیٹھیں گے اور ان کے اہلِ خانہ نواز شریف کی خرابی صحت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال نہیں کر سکیں گے گویا نواز شریف اگر خدانخواستہ کسی سیریس سے سیریس بیماری میں مبتلا ہیں تو انہیں ملک کے اندر کسی ہسپتال میں ہی علاج کروانا پڑے گا اور تندرستی کا سرٹیفکیٹ لیکر جیل میں جانا ہو گا اور اگر ان کے متعلق کوئی قابل ذکر بیماری سامنے نہیں آئی تو بھی جیل جا کر رہائی پانے والی آپشن کو دوبارہ استعمال نہیں کر سکیں گے۔
اگر شواہد اور قانون کے مطابق نواز شریف کو رہائی نہ ملنے کا فیصلہ سامنے آتا تو اسے سیاسی طور پر زیادہ ایکسپلائٹ کیا جا سکتا تھا اور اس سے لوگوں کی ہمدردی سمیٹنے کے مواقع زیادہ پیدا ہو سکتے تھے مگر اب تو اس فیصلہ کے بعد نواز شریف اور ان کی جماعت پر دو صورتوں میں سیاسی ایکسپلائٹیشن کے بارے پتے ایک ایک کر کے اپنے ہاتھ سے پھینک چکی ہے۔ صرف کسی این آر او کے تحت یا سعودی ماڈل کے تحت ہی وہ قوم کی لوٹی دولت واپس کر کے ملک سے باہر جا سکتے ہیں اور اس بات کا اشارہ وزیراعظم عمران نے دیکر اپنے نواز اور زرداری کو کسی قیمت میں نہ چھوڑنے والے سخت مئوقف کو بدل لیا ہے جسے ان کے حامی ہرگز ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔

مزیدخبریں