کشمیری تہذیب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، یعنی عہدِموسیقیت،رومانویت اور حقیقت پسندی،لیکن یہ باتیں پرانی ہوئیں، یہ متنوع تہذیب موجودہ عہد میں بھی ایک دور سے گزر رہی ہے جس کا کوئی عنوان ابھی تک تجویز نہیں کیا جاسکا۔کشمیر کا عہدِ موسیقیت صرف موسیقی کے لیے معروف نہیں ،کیوں کہ اُس عہد کے لوگوں کا ذوقِ جمال زندگی کے ہر شعبے سے جھلکتا ہے جسے دیکھ کرایسی ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جیسی کوئی پھڑکتا ہوا شعر یا سریلا گیت سن کر کسی صاحب ذوق میں پیدا ہوسکتی ہے۔ عہد ِ رومان کو توازن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ایک لاپروا اور الہڑ جذبہ اپنی تمام تر زور آوری کے بعد جب توازن کی کیفیت اختیار کرتاہے تو عشق بَلاخیز کو دوام مل جاتا ہے۔ارضِ کشمیر کا حیران کردینے والا طرز تعمیر اور اس کی تمام تر تفصیلات کشمیری تہذیب کے دوسرے عہد کی نمائندگی کرتی ہیں
مغلیہ عہدمیں کشمیر کا تہذیبی سفر جذبات اور توازن کے مرحلوں سے گزر کر پختگی کی منازل طے کر چکا تھا، لہٰذا اسے حقیقت پسندی کے عہدسے تعبیر کیا گیا جس میںوہ صدیوں کے تجربات کے بعد یہ سمجھنے کے قابل ہوا کہ منہ زور جذبے اور توازن کے درمیان ایک نقطۂ اتصال بھی پیدا کیا جاسکتا ہے ارضِ ہند میں جن دنوںاسلامی تہذیب کی روشنی میں ایک نئے ثقافتی عہد کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی، اہلِ کشمیر یہ مرحلہ پہلے ہی طے کرچکے تھے۔
کشمیر اس تہذیبی معراج پر کیسے پہنچا؟ عہد رسالت ﷺکے بعد تقریباً 80 برس کے دورانئے میںاسلام کا پیغام دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل چکا تھاجن میں وسط ایشیا بھی شامل تھا۔کشمیر میں اسلام کی روشنی اسی راستے سے پہنچی۔اسلام کی برکت سے ذات پات کے غیر انسانی نظام میں جکڑے ہوئے سماج میں مساوات، برابری ، محبت اور برداشت جیسی اعلیٰ اقدار فروغ پائیںجن کے زندگی کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
کشمیری زبان و ادب کی نشوونما کا بھی کازمانہ بھی یہی ہے۔یہاں کی ادبی تاریخ کم از کم چھ سو برس پرانی ہے،گویا برطانیہ کے چاسر کی ہم عصر ہے۔یہ کشمیری ادب اور اس کا لوک ورثہ ہی تھا جس کی عظمت کا اعتراف معروف مستشرق ہنٹن نولز نے یہ کہہ کرکیا کہ دنیا کی کسی زبان میں اس اعلیٰ پائے کا لوک ادب نہیں پایا جاتاجس قدر یہ کشمیری زبان میں پایا جاتا ہے۔کشمیر میں باقاعدہ شاعری کی ابتدا لِلا عارفہ سے ہوتی ہے جو کہتی ہیں …؎
ترک کر یہ ماسوا
تَرک کر حرص و ہوا
نور ہی میں ڈوب جا
دیکھ اس کے نور کو
ہے وہ تیرے ہی قریب
کچھ نہیں اس کے سوا
کشمیر کی اس منفرد شعری روایت کی اگلی کڑی کشمیری گیت کی بانی حبہ خاتون ہیں۔انہوں نے اپنے گیت میںکشمیر کے حسین نظاروں، شجر وحجر اور آبشاروں کے بیان میں نسوانی محسوسات ایسے فن کارانہ انداز میں سمو ئے ہیںکہ پڑھنے ولا پڑھے اور سر دھنے۔انھیں بلاوجہ رومان اور غنایت کی ملکہ نہیں قرار دیا جاتا ۔ ان کی ایک واکھ ہے ؎
دور تک پھیلے ہوئے ہیں،
لدے ہوئے پھولوں کے سبزہ زار
ڈوب گئیں پھولوں میں یکسر،
میرے دیس کی جھیلیں اور کہسار
تو نے سنی بھی میرے دل کی پکار؟
آؤ لُوٹیں جلوۂ حسنِ بہار
1857ء کی جنگِ آزادی نے برصغیر میں بیداری کی ایک نئی لہر پیداکی ، یوں خطۂ کشمیر میں بھی آزادی کی تمنا نے زور پکڑا۔ یہی زمانہ غلام احمد مہجور کی فکری تگ وتاز کا ہے جنھوں نے شعر کو ہڈ بیتی کی تنگنائے سے نکال کر جگ بیتی بنا دیا۔کہتے ہیں …؎
چمن والے چمن میں اب نئی ایک شان پیدا کر
کَُِھلیںگُل،ہوں فدا بُلبل ،تو وہ سامان پیدا کر
مسلم برصغیر کا یہ حصہ بدقسمتی سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح آزادی کی منزل نہ پاسکا جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں میں عمومی طور پر یاس کی کیفیات پیدا ہوئیں۔ (جاری)