لاہور (احسن صدیق) دنیا میں کسی ملک نے اتنی زیادہ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں نہیں دیں جتنی پاکستان میں دی گی ہیں۔ حکومت اس سکیم کے تحت 3ماہ کی مدت دے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس امر کا اظہار ایف بی آر کے سابق ممبر اور سابق چیف کمشنر مصطفیٰ اشرف، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بنکینگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اشرف بھٹی نے حکومت کی جانب سے 15اپریل کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرانے پر اپنے ردعمل میں کیا ہے۔ ایف بی آر کے سابق ممبر اور سابق چیف کمشنر مصطفیٰ اشرف نے کہا کہ سکیم کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے گزشتہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی تھی، اس وقت تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے بیانات دئیے تھے کہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی دوبارہ تحقیقات کرائی جائیں گی اور ان پر ٹیکس عائد کیا جائے گا جس کے بعد پارلیمنٹ نے اس سکیم کو منظور کیا اور سپریم کورٹ نے اس سکیم کو کلیئر کیا جس کے بعد وہ سکیم مناسب حد تک کامیاب رہی تھی اور اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے اندرون ملک اور بیرون ملک سے 125ارب روپے کے لگ بھگ ریونیو حاصل ہوا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بنکینگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں انتہائی کم شرح سے اتنی زیادہ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں نہیں دیں گیئں جتنی پاکستان میں دی گئیں ہیں۔ پاکستان میں ہر حکومت ٹیکس ایمنسٹی سکیم دینا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے ماضی میں جتنی ٹیکس ایمنسٹی سکیمیںآئی تھیں وہ سب کی سب ناکام رہیں۔ موجودہ حکومت ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا نفاذ بنیادی شرائط کو پورا کئے بغیرکر رہی ہے اس لئے کوئی شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ سکیم بھی ناکام ہو گی۔ نیا کالا دھن پیدا ہوتا رہے گا اور پرانا کالا دھن سفید ہوتا رہے گا وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ حکومت کی نافذ کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو سختی سے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی دوبارہ تحقیقات کرائیں گے لیکن یہ بات صرف بیان تک رہی۔ آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اشرف بھٹی نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے لوگوں کوفائدہ اٹھانا چاہئے اس طرح ملک کی معیشت درست ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سکیم کی مدت کم از کم 3ماہ رکھی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں۔