گزشتہ دو دنوں میں چند نئے لوگوں سے شناسائی نصیب ہوئی۔ مختلف کاروباری شعبوں میں وہ امریکہ جیسے ممالک میں بھی اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہے۔ بنیادی طورپر غیر سیاسی لوگ ہیں۔ عمران حکومت سے مگر خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
اس توقع کے باوجود وہ وزیر خزانہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اسد عمر کی سربراہی میں پاکستان کی معیشت ایک طے شدہ سمت کی طرف رواںنظر نہیں آرہی۔ سمت طے ہوئی نظر آئے تو سفرمیں درپیش متوقع یا غیر متوقع پریشانیوں سے دل نہیں گھبراتا۔ اپنے محدود علم کے باعث ان کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے معیشت کے نئے پہلو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ علم معاشیات کی باریکیاں نہ جانتے ہوئے بھی فقط عام لوگوں سے ہوئی گفتگو کی بنیاد پر اس کالم میں تواتر کیساتھ اس پریشانی اور اداسی کا ذکر کرتا رہا ہوں جو عمران خان صاحب کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد متوسط طبقے کی مختلف سطحوں سے تعلق رکھنے والوں پر نازل ہوئی نظر آرہی ہیں۔ان کا ذکر کرتے ہوئے فقط موجودہ حکومت ہی کو ذمہ دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔ ’’وقت کرتاہے پرورش برسوں- حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘ والا قصہ ہے۔عنانِ حکومت سنبھالنے والوں سے مگر یہ اُمید باندھی جاتی ہے کہ وہ آفتوں کے موسم میں عوام کو حوصلہ دیتے سنائی دیں۔ ہمیں ان کی باتیں سنتے ہوئے کم از کم یہ احساس ضرور ہو کہ وہ ہماری پریشانیوں کے بارے میں متفکر ہیں۔ اسدعمر صاحب مگر ٹی وی سکرینوں یا پارلیمان میں بات کرتے ہوئے پریشان ہوئے افراد کے بارے میں ہرگز فکر مند نظر نہیں آتے۔ اپنی وزارت سے جڑے معاملات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا رویہ ایک ٹیکنوکریٹ والا ہوتا ہے۔ ’’بیمار‘‘ معیشت کو ICUسے نکال کر صحت یابی کی طرف گامزن دکھاتے رہتے ہیں۔ پیر کی سہ پہر وہ اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے تو ان کی تقریر چینلوں پر براہِ راست نشر ہوئی۔ اپنے گھر میں اکیلا بیٹھا میں ان کے ایک ایک لفظ کو غور سے کھلے ذہن کے ساتھ سنتا رہا۔ اسی دن صبح کے اخبارات میں صفحہ اوّل پر نمایاں انداز میں ورلڈ بینک کی ایک رپور ٹ کا ذکر ہوا تھا۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت رواں مالی سال میں 4فی صد کی شرح سے بڑھ نہیں پائے گی۔ 2019-20ء کے مالیاتی سال کے لئے بھی خیر کی خبر نہیں۔ آئندہ برس ترقی کی شرح بلکہ 3فی صد سے بھی گر جائے گی۔جنوبی ایشیاء میں افغانستان کے حالات معاشی اعتبار سے باقی ممالک کے مقابلے میں دگرگوں ہیں۔ وہاں کئی برسوں سے مگر خانہ جنگی اور امریکی افواج کا قبضہ ہے۔ پاکستان اس کے مقابلے میں ایک مستحکم اور پرامن ملک ہے۔ اس کی معیشت میں نمو کی شرح مگر بنگلہ دیش سے بھی آدھی ہے۔ بھارت سے تقابل کا ذکر کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔دل جلنا شروع ہوجاتا ہے۔اسد عمر صاحب کی جو تقریر میں نے سنی اس میں ورلڈ بینک کی مذکورہ رپورٹ کا براہِ راست ذکر نہیں تھا۔ جنوبی ایشیاء میں پاکستان کے افغانستان سے ذرا بہتر مقام کا ذکر البتہ انہوں نے ضرور کیا اور 1960ء کی دہائی کے وہ ’’اچھے دن‘‘ یاد کرنا شروع ہوگئے جب پاکستان جنوبی کوریا جیسے ملکوں کے مقابلے میں بھی تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں تھا۔
1960ء کی دہائی کے مبینہ ’’اچھے دنوں‘‘ کی حقیقت کا اس کالم میں کئی بار ذکر ہوچکا ہے۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ حیران کن پریشانی اسد عمر صاحب کی تقریر سنتے ہوئے محض اس وجہ سے میرے ذہن پر حاوی رہی کیونکہ ہمارے وزیر خزانہ مذکورہ خطاب میں اس حقیقت سے نابلد نظر آئے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے 50ہزار سے دو لاکھ روپے ماہوار کمانے والے ملازم پیشہ اور چھوٹے کاروبار سے متعلق افراد خود کو بہت تیزی سے معاشی اعتبار سے ایک معقول مقام سے پھسل کر نیچا گرتے ہوئے محسوس کررہے ہیں۔ معاشی ڈھلوان سے پھسلنے کا خوف لوگوں کے چہروں پر اب نمایاں طورپر نظر آنا بھی شروع ہوگیا ہے۔ اسد عمر ملکی معیشت کو ICUسے نکال کر استحکام کی طرف دھکیلنے کے دعوے تو کررہے ہیں مگر خوفزدہ ہوئے متوسط طبقے کے افراد کو کوئی حوصلہ ہرگز مہیا نہیں کررہے ۔ انکی ساری توجہ معاشی زبان میں جسے Macroکہا جاتا ہے منظر نامے پر مرکوز ہے۔ وہ ریاستِ پاکستان کے کھاتوں کو مالیہ اور برآمدات بڑھاتے ہوئے ’’سیدھا‘‘ کرنے کی لگن میں مبتلا ہیں۔ ساری توجہ ’’سرکاری‘‘معیشت کو بہتر بنانے پر خرچ ہورہی ہے۔اس ضمن میں جاری کوششوں کو نصابی زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔مختلف النوع Deficitsیعنی ’’خساروں‘‘ کا تذکرہ ہوتا ہے۔
50ہزار سے دو لاکھ روپے ماہوار کمانے والی بریکٹ میں جکڑے متوسط طبقے کو ان Deficitsکی سمجھ نہیں آتی۔ اس طبقے نے ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لئے۔ جو قرض ہماری تمام حکومتیں لیتی رہی ہیں ان کا اثر بھی انہیں اپنی روزمرہّ زندگی میں نظر نہیں آتا۔ 1960کی دہائی میں دریائوں پر بند باندھ کر پیدا ہوئی بجلی انہیں یاد ہے۔ نواز حکومت نے چین جیسے دوست ممالک کی ’’مدد‘‘ سے جو منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ان کی اہمیت کو سراہتے ہیں مگر ان منصوبوں کی لاگت سے جڑے مسائل کا انہیں ادراک نہیں۔ خلقِ خدا کی اکثریت میں تاثر بلکہ تیزی سے یہ پھیل رہا ہے کہ سرکار اپنے کھاتے سیدھا کرنے کے لئے انہیں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے ’’سزا‘‘ دے رہی ہے۔ حکومتیں ’’سزا‘‘ کے بعد ’’جزا‘‘ کا بندوبست بھی کرتی ہیں۔ترقیاتی کاموں کے لئے اس حکومت کے پاس لیکن وافر رقم موجود نہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں امراض کی تشخیص کے لئے جو ٹیسٹ ہوتے ہیں وہ اب مفت نہیں ہوتے۔ خلقِ خدا کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے عمران حکومت ’’سیٹھوں‘‘ کو یقین دلاتے چلی جارہی ہے کہ FBRوغیرہ مالیہ وصول کرنے کی لگن میں انہیں عتاب کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ برآمدات بڑھانے کے نام پر دوسرے منی بجٹ کے ذریعے چند کاروباری گروہوں کو ٹھوس انداز میں ریلیف بھی فراہم ہوئی۔بارہا یقین دہانیوں کے باوجود مگر سوئی گیس کے صارفین کو وہ ریلیف ہرگز مہیا نہیں ہوا جس کا وعدہ ہوا تھا۔ بلوں میں Slabsکا گورکھ دھندا اپنی جگہ موجود ہے۔ ’’سزا‘‘ اور جزا‘‘ کے اطلاق میں مناسب توازن کی عدم موجودگی خلقِ خدا کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ سرکار کو اس کے مسائل کی کوئی فکر نہیں۔ تمام توجہ ا پنے کھاتے سیدھا کرنے پر مرکوز ہے۔ اگر یہ سوچ برقرا ررہی تو خلقِ خدا میں سرکار سے بیگانگی بڑھے گی۔اس بیگانگی کی اہمیت سمجھنا ہو تو حال ہی میں ترکی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات پر غور کر لیجئے۔ اردوان کو ’’سلطان‘‘ بنانے والے استنبول نے حزب مخالف کا امیدوار اپنے میئر کے طور پر منتخب کر لیا ہے۔ اس کے سوا اور کیا لکھوں؟!