اِنسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا غیر معمولی رتبہ دے کر دنیا میں بھیجا بلاشبہ عظیم ہے مگر بعض حالتوں میں یہی اِنسان پستی اور خود غرضی کا اِس قدر شکار ہے کہ اِس کی حرکات و سکنات سے حیوان تک حیراں و ششدرہ جاتے ہیں۔ ضد پے آئے تو کونین کو ویراں کر دے…بہکنے پے آئے تو اپنے تمام تر اوصاف حمیدہ پل بھر میں کھو دے؟ افسوس! کہ COVID-19 کا ذمہ دار بھی اِنسان ہی ٹھہرایا گیا۔ اِس جان لیوا موذی مرض کی ابتداً سانپ ، چمگادڑ‘‘ کھانے سے ہوئی حالانکہ عام غیر مسلموں میں دونوں DISHES کا استعمال مہنگے ترین داموںمیں ہوتا ہے مگر افسوس! یہی انسان اپنے پروردگار عالم کے احکامات کی نافرمانی کا مرتکب ٹھہرا! جس کی وجہ سے گزشتہ 4 ہفتوں سے یہ بیماری ، غیر یقینی صورت حال ، بیچارگی اور بے بسی کا شکار نظر آ رہی ہے۔ اب تک دنیا کے 180 ممالک میں قیامت صغریٰ برپا ہو چکی ہے…کل تک جنہیں اپنی ’’عقل کُل پر‘‘ ناز تھا آج وہ بے چینی اور خوف میںمبتلا نظر آ رہے ہیں۔ پوری دنیا بے یارو مددگار دکھائی دینے لگی ہے۔ ہم مسلمانوں کا روز قیامت پر چونکہ قوی ایمان ہے واقعات و حالات دیکھتے ہوئے نہ جانے مجھے ’’قیامت‘‘ کے مناظر کیوں دکھائی دینے لگے ہیں؟ مگر یہ آواز بھی آ رہی ہے کہ گھبرائو نہیں…توبہ کے دروازے کھل چکے ہیں۔؟؟
حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ قیامت سے قبل ایسی بیماریاں دیکھی جائیں گی اور ایسی ہی موذی بیماریاں اب دیکھی جا رہی ہیں۔ قارئین کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو انہیں بخوبی علم ہو گا 1980ء میں Aids نامی موذی بیماری نے کئی یورپی ممالک کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا حالانکہ ’’قوم لُوط‘‘ کے حوالہ سے اس بیماری کی قرآن پاک میں وجوہات بھی بیان کر دی گئی تھیں مگر انسان کی نافرمانی اور کمزوری یہاں بھی آڑے آئی جس سے دنیا کے 3 کروڑ افراد لقمۂ اجل بن گئے مگر سبق انسان نے پھر بھی نہ سیکھا؟
برطانوی حکومت کے چیف سائنٹفک ایڈوائزر کپیٹرک نے برطانوی ہیلتھ کمیٹی کو دی گئی اپنی حالیہ پریس بریفنگ میںبغیر لگی لپٹی یہ واضح کر دیا ہے کہ برطانیہ میں اب تک 56 ہزار کرونا مریضوںکی تصدیق ہو چکی ہے جس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لیے فوری اور درست حکمت عملی کو ہنگامی بنیادوں پر متعارف کروانا ہو گا تاکہ اِس حکمت عملی کی بدولت 20 ہزار افرادکو ہلاکت سے بچایا جا سکے۔ ایک اور خفیہ سروے میں بھی اِس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ آئندہ 10 سے 14 ہفتوں کے دوران ’’کروناوائرس‘‘ کا مزید برطانوی شہریوں پر اثرانداز ہونے کا اندیشہ موجود ہے اس لیے اس وائرس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے فی الحال سب سے بہترین طریقہ SELF ISOLATION اور SOCIAL DISTANCE یعنی وائرس کی صورت میں ’’اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا اور ایک دوسرے سے دوران گفتگو 3 میٹر کا فاصلہ رکھنا ہے ’’خود ساختہ تنہائی‘‘ اور ’’سماجی دوری ‘‘ کے علاوہ 20 سیکنڈ تک صاف اور پانی سے ہاتھ دھونا ہر شخص پر لازم ہے۔
چاہئے تو یہ تھاکہ اس جان لیوا مہلک مرض کے خاتمے کے لیے خلوص دل سے ہم توبہ استغفار کا دورانیہ بڑھا دیتے…خوراک کے ہاتھوں مجبور بے روزگار افراد کی مددکرتے…اپنی ملازمتوں اور اپنے کاروباروں کے لیے مزید برکت کی دعائیں مانگتے…مگر افسوس! مشکل کے اس موقع پر ہماری ہی بعض پاکستانی کاروباری شخصیات نے اپنے ’’کیش اینڈکیری‘‘ بزنس کے منافع کی شرح بڑھانے کے لیے قیمتوں میںاضافہ کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’مال پیچھے سے ہی مہنگا‘‘ مل رہا ہے…؟ ’’LOO ROLL‘‘جنہیں انتہائی سستے داموں خریدا جاتا تھا شاپنگ سٹوروں اسے مکمل غائب اس لیے ہو چکا ہے کہ ’’اسی انسان‘‘ نے خودغرضی کا ثبوت دیتے ہوئے ان ROLLS کو BULK کے طور پر خرید لیا۔لندن آہستہ آہستہ اب مکمل ’’لاک ڈائون‘‘ کی جانب بڑھ رہاہے…جبکہ فلائٹس، انڈر گرائونڈ ٹرینوں، نیشنل ایکسپریس بس سروس، اور نیشنل ریلویز سروس کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اور آئندہ چند روز میںفوج کو ’’کرونا وائرس‘‘ سے پیدا تشویشناک صورتحال پر قابو پانے کے لیے ’’الرٹ‘‘ کر دیا گیا ہے۔ جس روز یہ سطور شائع ہونگی اس روز مجموعی طور پر برطانیہ کی حالت کیا ہو گی کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم برطانوی تاریخ میں یہ واقعہ ہمیشہ یادرکھا جائے گا کہ 21 مارچ 2020 ء کی لندن اور گردونواح میں ادا کی گئی ’’نماز جمعہ‘‘ مساجد میں نہیں بلکہ گھروںمیں ادا کی گئی جو مسلمان کمیونٹی کا برطانوی آئین اور احکامات کی پاسداری کا واضح ثبوت ہے جبکہ دوسری جانب برطانوی پارلیمنٹ نے ’’کروناوائرس‘‘ کی حکمت عملی کے تحت ایک ایسا متنازعہ بل بھی پاس کر دیا ہے جس میں واضح کیا گیا کہ اس مہلک بیماری سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی ’’میتوں‘‘ کو دفن کے بجائے جلایا CREMATE جائے گا جس سے مسلمان کمیونٹی میں گہری تشویش پائی جارہی ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس بل کی مخالفت میںاپنے دستخطوں سے وہ اِس فیصلے کو ناکام بنائے کہ ہمارے دین میں میت کو جلایا نہیں جاتا۔