یہ امتحان کے دن ہیں

وزیر اعظم عمران خان بالکل درست فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ امتحان کے دن ہیں کیونکہ کسی کوئی پتہ نہیں ہے کہ اس وبا نے کب ختم ہونا ہے۔جی بالکل یہ بات تو انہوں نے سو فیصد سچ کہی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی سائنس دان ابھی تک یہ نہیں بتاسکتا ہے کہ اس وائرس کی زد میں کتنے بر اعظموں کے کتنے لاکھ لوگ آئیں گے اور کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کورونا وائرس کے بعد شروع ہونے والی معاشی جنگ کب تک دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کو اپنے شکنجے میں جکڑے رکھے گی۔ ویسے تو ساری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا شکار ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ اپنی حثیت اور اپنے وسائل سے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں یورپ و امریکہ میں ہو رہی ہیں لیکن سیاست مشرق کے ملکوں میں اپنے عروج ہے ۔ہمارے ہاں بھی اپوزیشن اس وبا کو لے کے سیاسی بیان بازی میں مشغول ہے ۔کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم بحیثیت قوم کسی مسئلے پر ایک ساتھ کھڑے ہوئے ہوں۔ آج حکومت کہہ رہی ہے کہ اس وبا سے جلد چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ لوگ اپنے گھروںمیں قیام کریں اور کسی بہت ایمرجنسی کی صورت میں ہی گھروں سے باہر نکلیں۔لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ روز بہت سے لوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہوتے ہیں پولیس اگر نرمی کرتی ہے تو لوگ لاک ڈاون پہ عمل نہیں کرتے اور اگر پولیس مجبوری میں کسی کو ’’مرغا‘‘ بناتی ہے تو اسکی ویڈیو ساری دنیا میں شیئر ہونے لگتی ہے ۔بڑے شہروں میں اگر انتظامیہ سختی کر رہی ہے کہ لوگ کم تعداد میں مسجد میں عبادت کریں تو چھوٹے شہروں،قصبو ںاور دیہات کی مسجدوں میں نماز یوں کی تعداد بڑھ چکی ہے ۔حکومت اگر عوام کیلئے ایک پلان لے کے آرہی ہے تو ملک بھر کے مخیر حضرا ت حکومت کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ ہر شہر میں ہر قصبے میں اور ہر گاوں میں لوگ اپنے قریب بسنے والے مستحق لوگوں کے گھروں کا چولہا جلانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی ایسی خبر نظروں سے نہیں گزری ہے کہ کہیں کوئی بھوک سے مر گیا ہو یا کوئی غریب راشن نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو فرو خت کرنے بازار میں جا کھڑا ہوا ہو۔ہر طرح کی چور بازادی اور اقربا پروری بھی چل رہی ہے لیکن لوگ ابھی تک اپنے گھروں میںاس امید سے ہیں کہ ہم نے مل کے اس وائرس کو شکست دینی ہے ۔یہ سچ ہے کہ ہمارے زیادہ تر سیاستدان سیاست میں مال اور جائیدادیں بنانے کیلئے ہی آتے ہیں جن کی سوچ پیسہ لگا کے پیسا بنانا ہو وہ سماجی بہبود کا کام نہیں کرسکتے۔لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جو سیاست کو آج بھی عبادت سمجھ کے کر رہے ہیں ۔ بہت سے نام اس حکومت میں بھی ایسے ہیں کہ جن کے دامن سفید چادر کی طرح صاف ہیں ۔جناب عمران خان نے اپنے قریبی لوگوں کے چینی بحران میں شامل ہونے کا خود اعتراف کر کے مستقبل میں ایسے جرائم کو روکنے کا عملی کام کردیا ہے ۔جناب عمران خان کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ پاکستا ن میں کروڑوں دیہاڑی دار لوگ ہیں جو کورونا وائرس کی وجہ سے اگر زیادہ عرصہ گھروںمیں رہے تو ان کیلئے مشکلات بہت زیادہ ہوں گی ۔ایک تحقیق کے مطابق آج بھی پاکستان میں 5 سے 6 کروڑ لوگ غربت کی لکیرکے نیچے ہیں ۔ایک بات جو خان صاحب کی اچھی لگی وہ یہ کہ انہوں نے اپنے نمائندوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو آج جومشکل وقت میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا کل قوم اس کے ساتھ ہی کھڑی ہوگی، یہ پیغام بھی بالکل صیح ہے کہ کورونا کسی کو نہیں بخشے گا لوگ پاگل پن کرکے اپنے آپ کومشکل میں نہ ڈالیں، اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ کورونا سے پاکستانیوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ مشکل میں ہی انسان کے ایمان کا پتا چلتا ہے جو بندہ اپنے وطن میں مشکل کو دیکھ کے بھی چور بازاری کرتا ہے ،دونمبری کرتا ہے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔ ہماری حکومت نے 8ارب ڈالرز کا پیکج دیا ہے، بے شک موجودہ حکومت کی طرف سے ملکی تاریخ کا یہ سب سے بڑا پیکج دیا گیاہے اور مستقبل میں مزید پیکجز کی امید بھی ہے کیونکہ آج ہمارا دیہاڑی دار، رکشہ ڈرائیور، چھابڑی والا سب گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں،لیکن ہم نے اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں کا خود بھی خیال رکھنا ہے۔ لاک ڈاون تب کامیاب ہوگا جب لوگوں کو گھر وں میں کھانا پہنچے گاووہان میں لاک ڈاون اس لیے کامیاب ہوا کہ ہر گھر میں کھانا پہنچایا گیا۔ موجودہ حالات تمام سیاست دانوں کیلئے بھی بڑا چیلنج ہے کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کیسے اپنے علاقے میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن