کراچی (خبر نگار)میئر کراچی وسیم اختر نے کہاہے کہ انسانیت کی خدمت اور فلاحی کاموں میں مصروف اداروں کو وہ سلام پیش کرتے ہیں، تھیلیسیمیا میں مبتلا مریضوں کے لئے جو بھی ممکن ہوسکا کیا جائے گا، کراچی میں 15ہزار سے زائد تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کو خون کے عطیات کی ضرورت ہے ، کراچی کے نوجوان آگے آئیں اور ان کی زندگیاں بچانے میں اپنا کردار ادا کریں ، پاکستان میں تھیلیسیمیا میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جو انتہائی فکر انگیز ہے اور اس تعداد کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ کزن میرج اور شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کے حوالے سے ٹیسٹ نہ کروانا ہے، یہ بات انہوں نے انچولی میں افضل میموریل تھیلیسیمیا فائونڈیشن کے زیر انتظام خون کے عطیات جمع کرنے کی مہم کے موقع پر خون کے عطیات دینے والے ایم کیو ایم کے کارکنوں اور شہریوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پرورکس کمیٹی کے چیئرمین حسن نقوی، سینئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن مسعود عالم اور دیگر منتخب بلدیاتی نمائندے اور افسران بھی موجود تھے، میئر کراچی نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث شہر میں لاک ڈائون کی وجہ سے تھیلیسیمیا میں مبتلا مریضوں کے لئے خون کے عطیات کی شدید کمی ہے اس لئے نوجوان آگے آئیں اور ان مریضوں کی جان بچانے میں اپنا کردار ادا کریں، انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست پر شہریوں نے اس حوالے سے جو تعاون کیا ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن ابھی بھی خون کے مزید عطیات کی ضرورت ہے کیونکہ تھیلیسیمیا کے مریض ان عطیات پر ہی زندہ رہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو 10 سے 40 دنوں کے درمیان نئے خون کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان مریضوں میں خون کے سرخ خلیات بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لئے انہیں مرض کے لحاظ سے مختلف اوقات میں نیا خون دینا ضروری ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ اس کے مستقل علاج میں بون میورو ٹرانسپلاٹ سے ہی ممکن ہے اور مریض کا سگا بھائی یا بہن جس کا بون میورو مریض سے ملتا ہو وہی عطیہ کرسکتا ہے اور 18 سے 20 لاکھ روپے کے اخراجات بھی درکار ہیں جو ایک عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا، میئر کراچی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔
وسیم اختر
تھیلی سیمیاکے مریضوں کے لیے جو ممکن ہو سکاکریں گے، وسیم اختر
Apr 10, 2020