ّقانون کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ جب تک کسی فرد پر الزام ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ قانون کی نظروںمیں معصوم تصور کیا جائے گا۔ قانون کی زد میں کوئی بھی آسکتا ہے۔ پاکستان میں ایک عجیب رواج ہے، جیسے کوئی سیاستدان قانون کے شکنجے میں آتا ہے تو ہونا تو یہ چاہئے کہ اسکی پارٹی فوراً اسے پارٹی سے الگ کرے اور یہ نوٹیفکیشن جاری کرے کہ جائو میاں قانون سے اپنے معاملات سیدھے کرو، بری ہو جائوتو پارٹی کھلے دل سے آپ کا استقبال کریگی بصورت دیگر سزا بھگتو۔ لیکن ہمارے ہاں اسکے برعکس ہوتا ہے۔
اگلے دن ملک بھر کے اخبارات میں اس پارٹی کے چیئرمین کی طرف سے بیان آتا ہے کہ ہمارے کارکن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کوئی بھی لیڈر یاکارکن کسی بھی گھنائونے جرم میںملوث ہو، جیسا کہ بھتہ خوری، زمین پر ناجائز قبضے یا مالی کرپشن سب سے پہلا سٹینڈ یہی لیا جاتا ہے کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گوکہ ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے کہ حکومتیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یا حکومتی مشینری کو استعمال کرتی رہی ہیں اور یہ نیک نامی پاکستان کی کسی ایک سیاسی جماعت میں نہیں بلکہ اکثر و بیشترحکمرانوں کے حصہ میں آئی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں لیا جاسکتا کہ جب بھی کسی سیاسی کارکن یا رہنما کو پکڑا جائے اور وہ قانون کی گرفت میں آئے تو حکومت یا قانون نافذ کرنیوالے ادارے اس کو اپنے مذموم /مخصوص مقاصد حاصل کرنے کیلئے ہی استعمال کریں لیکن ہر دور میں سیاسی پارٹیوں میں سیاسی انتقام کے نعرے کو بھی خوب استعمال کیا ہے۔ جیسے کوئی پکڑا جاتا ہے تو ہر طرف سے سیاسی انتقام کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس نعرے کی وجہ سے معاشرے میں جو ابتری، بے یقینی اور شکوک پیدا ہوتے ہیں، اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا عدالتیں، ان کی ساکھ بری طرح سے مجروح ہوتی ہے۔ عوام کے دلوںمیں انکی ساکھ کے بارے میں جو شکوک پیدا ہوتے ہیں، اسے دورکرنے کاکوئی طریقہ بھی نہیں۔
عدالتیں تو میڈیا میں آکر اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتیں لیکن اگرقانون نافذ کرنیوالے ادارے یا کرپشن کیخلاف تادیبی کارروائی کرنیوالے ادارے اپنے ترجمانوں کے ذریعے اپنے آپ کو یا اپنے نقطہ نظر کو کلیئر کرنے کی کوشش کریں تو ان پر تنقید شروع ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے سیاسی مجرموں کا تقدس مجروح ہونا شروع ہو جاتا ہے، نتیجتاً دھیرے دھیرے یہ ادارے اپنا اعتبار کھوتے جا رہے ہیں۔ پولیس، عدالت، انتظامیہ، نیب خیر سے ان میں سے کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جس کی ان مجرموں نے اپنی طرف سے رتی بھر کوئی ساکھ چھوڑی ہو۔ اور تو اور اس مملکت خداداد کا چوتھا ستون (میڈیا) بھی بے توقیر اور بے وقعت ہو چکا ہے۔ آیئے ذرا ایک بہت بڑے میڈیا گروپ کے مالک کاجائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان بننے سے قبل ان کا اخبار شروع ہوا جو دہلی کے چاندنی چوک میں فروخت ہوا کرتاتھا۔ پاکستان بنا، اخبار نے ترقی کی اوربے حد ترقی کی۔ کراچی کا سب سے بڑا اخبار بنا پھر 80ء کی دہائی میں لاہور سے بھی اخبار شروع ہوا اور ڈیوس روڈ پر اخبار کی ایک اپنی عمارت تعمیر ہوئی۔ پرویز مشرف دور میں دھڑا دھڑ ٹی وی چینلز کے لائسنس جاری ہوئے تو اس اخبار نے بھی ایک ٹی وی چینل کا آغاز کیا۔ یہ صاحب پاکستان کے بہت بڑے میڈیا ہائوس کے مالک ہیں اور صحافت کو ایک مشن کے بجائے کاروبار سمجھتے ہیں اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ صحافت ایک کاروبار ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، اسی لئے صحافت کو کاروبار اور کاروبار کو صحافت بنا کر بے حد ترقی کی اورخوشحالی پائی۔ لیکن جیسے ہی وہ صاحب نیب کی حراست میں آئے جوکہ ان کے خلاف ایک پراپرٹی کا کیس ہے تو صحافت اور آزادی صحافت خطرے میں پڑ گئی۔ مجھے نہیں معلوم کے اس کیس کا کیاانجام ہوگا، وہ مکمل طور پر باعزت بری ہوتے ہیں یا ان کو کوئی سزا ملتی ہے (جوکہ مشکل ہے) لیکن اس حراست کو آزادی صحافت کیخلاف قدم نہیں گرداننا چاہئے اور دوسرا سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ صاحب نیب کی حراست میں ہیں کیوں؟ اتنا بڑے میڈیا ہائوس کے مالک ہونے کے باوجود، اتنی دولت ہونے کے باوجود اور اس قدر بارسوخ ہونے کے باوجود آخر وہ نیب کی حراست میں گئے ہی کیوں؟ اگر وہ ایک ایماندار کاروباری ہیں تو اسے جیل یاترا کیوں کرنا پڑی؟ کیا ان کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ وہ صاحب تو سیاسی آدمی بھی نہیں۔ بقول انکے خود اور ان کے وکیل صاحب کے کہ وہ تو محض ایک کاروباری ہیں تو نہ انکے اوپر کوئی سیاسی انتقام ہوسکتا ہے اور نہ ہی انکی گرفتاری سے آزادی صحافت پر کوئی زد پڑ سکتی ہے۔ تو پھر اتنا شور کیوں؟ ایسے موقع پر اگر میری کبھی ان صاحب سے دوبدو ملاقات ہو تو صرف ایک ہی سوال پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ جیساکہ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ Why you did that?اللہ تعالیٰ نے آپ کو کون سی نعمت سے نہیں نوازا۔ آپکے پاس دولت کی ریل پیل ہے۔ ملک کے بڑے میڈیا ہائوس کے مالک ہیں۔ بہت بڑی شہرت ہے۔ آپ کو اور کتنی شہرت چاہئے۔ اس ملک نے آپ کو سب کچھ دیا، عزت و احترام، دولت، شہرت۔ آپ کو کیا ضرورت تھی اپنے آپ کو متنازعہ بنانے کی؟ یہ نوبت کیوں آئی کہ آج آپ نیب کی حراست میں ہیں۔ آپ عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ وکیلوں کے سوالات کے جوابات دیتے پھر رہے ہیں۔ لوگ آپکے بارے میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نیب کی حراست سے نکل جائیں، جیسا کہ ملک کا تین دفعہ کا وزیراعظم کرپشن کی وجہ سے جیل جاتا ہے اور پھر علاج کے بہانے ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ ملک کا پانچ سال تک صدر رہنے والا ایک آدمی مختلف جرائم میں جیل جاتا ہے اور پھر بری ہوتا ہے۔ پھر الزام لگتے ہیں پھر جیل جاتا ہے پھر بری ہو جاتا ہے۔ ایک وزیراعظم کو انہی کے پارٹی کے صدر کرپشن پر نااہل قرار دیتے ہیں اور وہ سارے الزامات سے بری ہو کر دوبارہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ ملک کے وزراء غیرملکوں میں اقاموں پر ملازمتیں کرتے ہیں اور پھر بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ بیووکریٹس ہیں تو جیل جاتے ہیں ،ان پر بدعنوانیوں کے، اختیارات سے تجاوز کرنے کے، آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز ہیں، معطل ہوتے ہیں اور پھر قانونی سقم کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے تمام بقایاجات اور سنیارٹی کے ساتھ بحال ہو جاتے ہیں اور ترقی بھی پاتے ہیں تو ایسے میں مجھے قوی امید ہے کہ آپ بھی قانون کے بڑے مایہ ناز اور بھاری فیسز لینے والے وکلاء کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے بری ہو جائیں گے اور پھر قانون کا منہ چڑایا جائے گا۔ آپ سے دست بستہ درخواست ہے کہ صحافت کو کاروبار کے بجائے معاشرے کی بہتری کیلئے اور اس مملکت خداداد اور اس کے عوام کی بہتری کیلئے ایک مشن کے طور پر استعمال کریں اور ہم جس قسم کے معاشرے کو تشکیل دے رہے ہیں، اداروں کو تباہ کر رہے ہیں، قانونی سقم کو استعمال کرتے ہوئے قانون کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اس سے مختلف ادارے تباہی کی طرف جا رہے ہیں جس کو روکنا ویسے تو ہر پاکستانی کا فرض ہے لیکن میڈیا ہائوسز اس میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔