ایک صاحب تہبندکے نیچے ایک پاؤں میں لال اور دوسرے میں کالی جراب پہن کر گھوم رہے تھے ۔کسی نے کہا‘ صاحب یہ کوئی نیا فیشن آیا ہے؟ وہ غصہ کھا گئے‘ کہنے لگے‘ آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے‘ میرے تودو جوڑے ضائع ہوگئے ہیں ۔ایک کالا اور لال جوڑا میں نے پہن رکھا ہے اور دوسرا ایسا ہی جوڑا میرے گھر میں موجود ہے۔ اب کون ان کو سمجھائے کہ صاحب آپ جوڑے ملا لیں اور اپنا کام سیدھا کرلیں ۔
پاکستانی سیاست میں جب تک لاہور قابو نہیں آتا اور حکومتی رٹ لاہور میں نہیں بنتی نہ تو مسلم لیگ (ن )کا اثر و رسوخ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی حکمران پارٹی کی پنجاب میں گرفت مضبوط ہوسکتی ہے۔زیادہ دور کی بات نہیں جنرل ضیا الحق کے خلاف سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک عروج پر تھی مگر اس تحریک کا لاہور نے ساتھ نہیں دیا اور بغیر کوئی رزلٹ حاصل کیے تحریک دم توڑ گئی جبکہ پی این اے کی تحریک میں لاہور نے پانسہ پلٹ دیا۔سوال یہ نہیں کہ حکمران جماعت کے پاس ٹیم نہیں یا اچھے لوگ نہیں ۔ ٹیم بھی ہے اور اچھے لوگ بھی بس جوڑے ملانے کی ضرورت ہے اور معاملات دنوں میں سیدھے راستے پر چل پڑیں گے۔
اپنے پہلے دور میں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے تو بلدیاتی انتخابات میں لاہور کے علاقہ ساندہ سے اچانک ہی ایک نام سامنے آیا ۔و ہ نام تھا ’’میاں اجو ‘‘ جو کہ میاں محمد اظہرکا نک نیم تھا۔گراس روٹ لیول کے اس بادشاہ نے پورے زور سے الیکشن جیتا اور پہلی ہی مرتبہ لاہور کا لارڈ میئر بن گیا۔انکے پاس عوام کی نبض تو تھی مگر انتظامی تجربہ ان کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا، میاں نواز شریف پانچ سال پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مغلیہ بادشاہت کی طرز پر کرچکے تھے اور لاہور ان کا سب سے مضبوط قلعہ تھا۔ سرکاری تانگہ سٹینڈ، بس سٹینڈ، کارپوریشن کی ڈسپینسریاں ، سرکاری سکولوں کے ارد گرد کی جگہیں حتیٰ کہ کوئی سرکاری جگہ ایسی نہیں تھی جہاں قبضہ مافیا نے اپنے پنجے نہ گاڑھے ہوں ۔
مسلم لیگ(ن ) کا عروج تھا اور میاں محمد اظہر لارڈ میئر لاہور کے سامنے ایک ہی چیلنج تھا کہ لاہور کو تجاوزات سے کیسے پاک کیا جائے ۔گراس روٹ لیول کے اس آدمی نے دوستوں سے مشورے کیے تو ایک آدمی نے مشورہ دیا کہ میاں صاحب ایک کوا مار کر لٹکا دیں سب کائیں کائیں کریں گے کوئی قریب نہیں پھٹکے گا ۔ کوئی ایک بڑا ہاتھ ماریں اور کسی نامی گرامی بندے کی تجاوزات گرادیں ۔ تلاش شروع ہوئی تو قرعہ وزیر اعظم نواز شریف کے سگے ماموں میاں عبدالحمید کے نام نکلا جو بیڈن روڈ پر ماما حمید کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ماما حمید نے سرکاری گلی پر قبضہ کرکے آئس کریم کی دکان بنا رکھی تھی اور ایک معروف برانڈ کے سامنے اپنا نرالا ہی برانڈ بنا لیا تھا ۔ میاں اظہر نے حکم دیا اور چند گھنٹوں میں مامے حمید کی دکان منظر سے ہٹ چکی تھی اور گلی کی رکاوٹیں دور ہوچکی تھیں ۔
شہر بھر کو پیغام چلا گیا کہ اگر میاں اظہر نے مامے حمید کو نہیں چھوڑا تو کسی کو بھی نہیں چھوڑے گا ۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ لوگ مزدور بلا بلا کر اپنی تجاوزات خود گرانے لگے ۔ چند ہی مہینوں میں لاہور کا قبلہ درست ہونے لگا تو میاں نواز شریف کے دائیں بائیں بیٹھے قبضہ مافیا کو شدید تکلیف شروع ہوئی ۔ سوال یہ تھا کہ میاں اظہر کو کیسے روکا جائے ؟ لاہور میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ میاں اظہر کے والد میاں فضل نے میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کو اس وقت پانچ کروڑ کی امداد دی تھی جب اتفاق فاؤنڈری بھٹو نے نیشنلائز کرلی تھی اور شریف فیملی سڑکوں پر آگئی تھی ۔اس وقت کے پانچ کروڑ کی اصلیت آج اربوں روپے کے برابر ہو ۔میاں شریف اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے لہٰذا میاں اظہر کے پر کاٹنے کیلئے انہیں ترقی دے کر گورنر بنا دیا گیا اور وہاں اپنے پرانے کارکن خواجہ ریاض محمود کو لارڈ میئر کے عہدے پر بٹھا کر اپنے لوگوں کو تحفظ ایک مرتبہ پھر فراہم کردیا۔بے چین روح کے مالک میاں اظہر کو وہاں بھی چین نہ آیا‘ انہوں نے گورنر ہاؤس عوام کیلئے کھول دیا اور سکولوں کے بچے آئے روز گورنر ہاؤس میں پکنک مناتے نظر آتے۔
اس دوران پنجاب میں امن و امان کی فضا انتہائی خراب ہوچکی تھی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں امن و امان کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے تھے۔چنانچہ امن و امان کا ٹاسک میاںاظہر کو دیدیا گیا ۔اس وقت کامونکی اور گوجرانوالہ کے درمیان ٹھانہ واہنڈو کا علاقہ غنڈوں کی آماجگاہ تھا اور وہاں پولیس بھی داخل نہیں ہوسکتی تھی۔سرکاری سڑکوں پر بیرئیر لگے ہوئے تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میںاشتہاری ہر وقت موجود رہتے تھے ۔ میاں اظہر نے غنڈوں کیخلاف تاریخی آپریشن کرکے چند دن میں علاقہ صاف کردیا اور ایک مہینے میں تمام غنڈے پنجاب چھوڑ چکے تھے۔غنڈوں کی تمام پاکٹس خالی ہوچکی تھیں ۔اچانک جرائم کی شرح کم ہوگئی تھی تو اراکین اسمبلی نے اپنی دال نہ گلتی ہوئی دیکھ کر غلام حیدر وائیں کو آگے کیا ۔نواز شریف کے پاس پہلے ہی شکایت پہنچ چکی تھی کہ میاں اظہر کی کارروائیوں سے اپنے ہی لوگ سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ہم نے الیکشن بھی جیتنا ہے ‘ لہٰذا اپنے تنخواہ دار ملازم غلام حیدر وائیںسابق گورنر سے احتجاج کروایا گیا اور اس وقت کے گورنر میاں اظہر سے امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری واپس لے لی گئی۔
بہت سے سیاستدان ایماندار ہیں مگر ایمانداری کے ساتھ جرأت اور انتظامی اُمو رپر جوگرفت میاں اظہر کے ہاں دیکھی گئی وہ پنجاب میں کسی کے ہاں نہ تھی۔اسی میاںا ظہرکا بیٹا حماد اظہر آج شاید پاکستان کا کم عمر ترین وزیر خزانہ ہے ۔ پھرواقفانِ حال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے باپ کی طرح ایماندار اور جرأتمندانہ فیصلے کرنے والا ہے مگر وہ لابنگ کرنے کے ماہر کابینہ کے دو وزرا کے عتاب کا شکار بنے اور یہ دونوں کاریگر وزرا باریک کام کے بھی ماہر ہیں ۔ انہیں وزارت خزانہ میں اپنے علاوہ کوئی اور شخص پسند نہیں لہٰذا سر منڈاتے ہی اولے پڑے کے مصداق حماد اظہر کے چارج سنبھالتے ہی انکے ساتھ انڈیا کے ساتھ امپورٹ کرنے کی ایک واردات منصوبہ بندی کے تحت ڈال دی گئی۔ اگر انہیں کام کرنے دیا گیا تو واقفانِ حال کے مطابق پاکستان کو ایک اور ڈاکٹر مبشر حسن یا ڈاکٹر محبوب الحق مل سکتا ہے ۔
اب آتے ہیں سیاست کے گڑھ لاہور کی طرف تین سال گزرنے کے باوجود لاہور میں پاکستان تحریک انصاف اپنی گرفت نہیں بنا سکی۔ جناب وزیراعظم سے التماس ہے کہ مختلف رنگوں کی جرابوں کے جوڑے ملا لیں ۔ آپ کالاہور قابو میں آجائیگا ۔ لاہور کی نفسیات سمجھنے والے دو قیمتی لوگ ابھی بھی موجود ہیں‘ انہیں ضائع نہ کیجئے گا۔ ایک میاں اظہر جو وضعداری کی سیاست کے امین ہیں اور نوجوان سیاستد انوں میں عبدالعلیم خان جو کم گو مگر ذہین اور معاملہ فہم ہیں اور پھر کابینہ کے رکن بھی ہیں اور انکے ساتھ اگر کامران لاشاری جیسا مزنگ کا رہنے والا نفسیات دان بیورو کریٹ شامل ہوجائے اور چار پانچ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپردشہرِ لاہور کردیا جائے تو حقیقی تبدیلی جس کے خواب دیکھے جارہے ہیں یقینی طور پر چند ہی ہفتوں میں نظر آنا شروع ہوجائے گی ۔