ارشاد نامہ

ان دنوں موصول ہونے والی کتب میں سے ایک نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ یہ ایک ایسے شخص کی داستانِ حیات ہے جن کے والدین کا سایہ تقسیم ہند سے قبل ہی ان کے سر سے اْٹھ گیا جب وہ محض اْس عمر میں تھے جب والدین کی محبت وشفقت کی ضرورت زندگی کی ہر ڈگر پر رہتی ہے لیکن زندگی کی ڈگر کی مسافت پدر کا ہاتھ پکڑے بغیر طے کرنا اْن کا مقدر تھی۔ اپنے بھائی کے ساتھ زندگی گزاری اور تقسیم ہند پر پاکستان تشریف لائے۔قارئین آپ کو میری طرح ہی خوشگوار حیرت ہوگی کہ اس بچے نے اپنی بے انتہا محنت اور زندگی کی جدوجہد میں کامیابی سے نہ صرف اپنا سفر طے کیا بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر پہنچ گیا۔میری مراد چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن خان سے ہے جن کا "ارشاد نامہ"کئی دن سے میرے زیرِ مطالعہ ہے۔معاون سے چیف جسٹس بننے کی یہ داستان انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔قدم قدم پر مشکلات کا سامنہ کرنے کی جرأت اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بیان کرتی یہ کتاب یا آپ بیتی ایک کتاب نہیں ایک ماٹو ہے ہم سب کیلئے کہ خدا نے ہمیں وہ صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ ناممکن کا لفظ ہمیں اپنی ڈکشنری سے خارج کرنا ہوگا۔
ارشاد حسن خان صاحب کی زندگی کی یہ داستان اْن کی قائداعظم سے بے پناہ عقیدت و محبت سے شروع ہوتی ہے۔جہاں سے متاثر ہوکر اْنہوں نے پیشہ وکالت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔تصور کیجئے کہ جس کی آغاز منزل کا آغاز ہی قائداعظم جیسی عظیم،پروقار اور بلند ہمت ہستی سے متاثر ہوکر سفر شروع کرنے کا ہو یقینا" اعلیٰ منزل تک پہنچنا اس کے دستِ قسمت میں خالق نے رقم کردیا تو کیونکہ منزل انہی کو مبارک ہوتی ہے جو سفرکے خار اپنی پلکوں سے چننا جانتے ہیں۔میں ارشاد نامہ کے ہر صفحہ کے اْلٹنے کے ساتھ ایک عجیب خوشی بھری حیرت میں مبتلاہوتی جارہی ہوں، ہر صفحہ منزل کی جانب ایک قدم کی مکمل داستان ہے۔ارشاد حسن خان کی زندگی بھرپور جدوجہد کااعلیٰ نمونہ ہے۔سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ رہے، انجمن حمایت اسلام لاء کالج میں بطور لیکچرار کام کیا،لاہور ہائیکورٹ کے جج کے عہدہ پر تعینات رہے۔فیڈرل سیکرٹری قانون وپارلیمانی اْمور، بانی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی، جج سپریم کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، چیف جسٹس سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ترین بے شمار عہدوں پرفائز رہے۔دْنیا کے تقریبا ہر ملک کی عدالتی کانفرنسوں میں بھی شریک رہے۔ پاکستانی عدلیہ نے عدالتی نظام کے بہترین بنانے کے حوالے سے کارہائے نمائے سرانجام دئیے ہیں اور یوں ایک مضبوط ریاستی ادارہ بنا۔کثیر تعداد میں ججز نے اپنے فرائض بخوبی نبھائے۔لیکن کم کم ہی ایسے سامنے آئے جنہوں نے زندگی کے تجربات کے نچوڑ کو کتابی شکل میں ترتیب دیا ہو۔اگر آپ بیتی سے یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ ایک آسان صنف ہے کیونکہ اس میں ادب کے لوازمات کا خیال رکھنے سے ہٹ کر لکھاری اپنی زندگی کے واقعات وتجربات کو من وعن لکھ کر اپنا فرض ادا کرسکتا ہے تومیں اس سے زیادہ اتفاق نہیں کرتی کیونکہ اپنی زندگی کے سچ کو آئینے میں دیکھنے اور لوگوں کے سامنے بیان کردینے کا حوصلہ بھی ہر ایک میں کہاں ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کے ابتدائی حالات، تلاش روزگار اور پھر ملازمت کے احوال کو جہاں نہایت عمدہ اسلوب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہیں شادی کا باب بھی خوب ہے۔شادی کااحوال اتنا دلچسپ ہے کہ پورا پڑھے بغیر آپ کتاب چھوڑ کر نہیں اْٹھ سکتے۔جگہ کی کمی کے باعث سارا قصہ تو نہیں لکھ سکتی لیکن آخر میں کچھ جملوں کی نرماہٹ اور ان سے جھلکتی بے پناہ محبت نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ میں آپ کو سنائوں۔مرد کے لئے یہی کافی ہے کہ اْس کی بیوی اْسے پسند کرتی ہے پھر وہ جی جان سے اپنے فرائض منصبی پورے کرتا ہے یہ میاں بیوی کے درمیان ایک"مان" ہوتا ہے کہ اْس کا جیون ساتھی اْسے پسند کرتا ہے اْس کے دل میں صرف اْس کی قدر ہے اور جب وہ کسی مشکل میں ہو تو جھک کر دل میں اْس قوت کو دیکھ لیتا ہے پھر اس کا حوصلہ بلند اور یقین مستحکم ہوجاتا ہے۔یہ الفاظ کمرہ عدالت میں سخت ترین فیصلے قلمبند کرنے پر مجبور ایک جج کے نہیں ایک نرم دل اور رشتوں کی اہمیت سے واقف ایک انسان کے ہیں جس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے۔ان کے علاوہ بھی ارشاد نامہ میں آپ کو مختلف واقعات پڑھتے ہوئے صاحب کتاب کے ادبی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ایک جگہ مرزا غالب کے شعر لکھتے ہیں کہ
روک لوگر غلط چلے کوئی
بخش دوگر خطا کرے کوئی
جگہ جگہ طنزوظرافت کے نشتر بھی چلائے ہیں اور حس مزاح سے لوگوں کو محظوظ بھی کرتے اور خود بھی ہوتے ہیں یہ ایک زندہ دل انسان کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"ملک صاحب نے کہا آپ مجھے بہت شریف اور اچھے لوگ لگے ہیں اْنہوںنے ہمارے شریف ہونے پر اتنا زور دیا کہ میں نے اْنہیں چھ ماہ کا کرایہ ایڈوانس چیک کی صورت میں ادا کردیا۔بعد میں جب اْس شخص کو معلوم ہوا کہ میں وکیل ہوں تو لاکھ کوشش اور منت سماجت کے باوجود اْس نے مجھے گھر نہیں دیا۔
پیشہ ورانہ، معاشرتی تعلقات پر مبنی ابواب انتہائی دلچسپ ہیں۔جگہ کی کمی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بہت سے دلچسپ واقعات کو آپ تک پہنچایا جاسکے لیکن میں وثوق سے کہتی ہوں کہ ارشاد نامہ جب آپ کے ہاتھ میں ہوگی تو آپ اس کو ایک نشست میں پڑھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔بہت سے عدالتی فیصلوں کی حقیقت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ظفر علی شاہ کیس کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔آپ نے ان دنوں میں کسی کتاب کو پڑھنے کاارادہ کر رکھا ہے تو "ارشاد نامہ"آپ کے لئے اچھی چوائس ہوسکتی ہے۔سادہ اور عام فہم داستانِ حیات آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ زندگی بسر کرنے کے ہنر بھی سکھائے گی۔زندگی کے سفر میں یہ ایک اور مشعل ہے جس نے اپنے حصے کا اْجالا کردیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن