زبانی جمع تفریق سے کیا فائدہ!

اسلام آباد گذشتہ کچھ دنوں سے مختلف قسم کی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اگر آپ شام 7 سے گیار ہ بجے تک اور پھر سوشل میڈیا پر مختلف طرح کے پروگرام دیکھنے کا باقاعدگی سے شوق رکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگلی صبح جب سو کر اٹھیں گے تو نہ جانے کیا کچھ ہو چکا ہو گا۔  کچھ پروگرامز میں اینکر یا میزبان اس اعتماد سے خبریں دے رہے ہوتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے یا تو یہ اعلیٰ حلقوں کی میٹنگ میں بذاتِ خود موجود تھے یا پروگرام کرنے سے پہلے نہایت اعلیٰ عہدیدار کے سٹاف افسر نے انہیں بریفنگ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اگلے دن اٹھیں تو ویسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو سن رکھا تھا۔ اس طرح کی فرضی اور من گھڑت کہانیوں سے جہاں ہیجان پیدا ہوتا ہے وہاں ملک میں بے یقینی کی کیفیت بھی چھائی رہتی ہے جس کے اثرات اسٹاک ایکسچینج، معیشت اور دیگر ملکی کاروبارِ زندگی کو برے طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ سوچ کر کہ کم از کم اپنے قارئین تک کسی حد تک درست اطلاعات دینے کی کوشش کروں.ہم نے ایک با خبر شخصیت سے ملاقات کا وقت مانگا۔ چائے پر ملاقات جب شروع ہوئی تو  عرض کیا کہ آج کل یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ فرمانے لگے کہ یار اصل مسئلہ کرپٹ بیورو کریسی اور پھراس کام لینے کا ہے۔ بات سمجھانے کی خاطر پرویز مشرف دور کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ہوا یوں کہ پرویز مشرف کو معلوم چلا کہ ٹاپ بیورو کریسی برے طریقے سے کرپشن میں پھنسی ہوئی ہے تو انہوں نے چند خاص مشیروں سے صلاح مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ کرپٹ اور ’’بدمعاش‘‘ قسم کے افسروں کو ہٹا کر شریف اور بہترین شہرت کے حامل بیورو کریٹس کو لگا دیا جائے۔ دو تین ماہ گزرنے کے بعد مانیٹرنگ ٹیم نے بتایا کہ کوئی کام کاج نہیں ہو رہا۔ وجوہ معلوم کرنے کے بعد علم میں آیا کہ ان لوگوں کو کام کرنا ہی نہیں آتا۔ اس پر مزید تحقیقات کی گئیں تو پتاچلا کہ ہمارے ملک کا سسٹم اس قدر خراب ہے کہ بیورو کریٹس میں بھی دو تین طرح کے گروپس ہیں۔ ایک جو دھڑلے سے غلط کام کرتے ہیں اور نیچے تک جن کے قدم مضبوط اور دھڑے ہیں۔ دوسرے شریف تو ہیں مگر ان کی بات ان کا کلرک بھی نہیں سنتا۔ اس انفارمیشن کی بنیاد پر پرویز مشرف کو مشورہ دیا گیا کہ واپس کرپٹ بیورو کریٹس کو لایا جائے مگر ان کے اوپر مضبوط چیک رکھا جائے۔ دو چار ماہ بعد ایک دو زیادہ بگڑے افسروں کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے ایسا ہی ہوا اور سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں ترقیاتی کام سب سے زیادہ بہتر ہوئے۔ اس وقت کے دور کے بلدیاتی نظام میں دور افتادہ دیہاتوں تک تمام سہولتیں میسر کی گئیں۔ مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں فریال تالپور، نفیسہ شاہ، نذر گوندل اور شاہ محمود قریشی جو اس دور میں ضلعی ناظم رہے انکے ٹی وی انٹرویوز اٹھا کر دیکھ لیں وہ سب چیخ چیخ کر اپنی پرفارمنس نہ صرف بتاتے جب کہ اس کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے دور میں بابو سے  سیکرٹری تک اور وزیر سے  اعلی قیادت تک سب کرپشن کی دلدل میں ایک ساتھ تھے، چنانچہ موجودہ سسٹم میں ان کی جڑیں اس حد تک مضبوط ہیں کہ دیانتدار آدمی کا چلنا بہت مشکل ہے۔ آج کل کے دور میں اگر وزیر اپنے سیکرٹری کو کہے کہ رشوت مکمل ختم تو اس وزارت کی پرفارمنس سب سے بری ہو گی۔ جبکہ وہی وزیر اپنے سیکرٹری کو کہے کہ مہینہ کے آخر میں 5 کروڑ مجھے ملنا چاہئیے تو سب کچھ نہ درست ہو جائے گا بلکہ اس وزارت کی گڈی آسمان تک چڑھا دی جائے گی اور مجھ سے معذرت کے ساتھ کہنے لگے کہ اس کام میں تمہارا میڈیا بڑھ چڑھ کر ایسے لوگوں کا ساتھ دے گا۔ میں نے عرض کی کہ آپ کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن اعتراض یہ ہے کہ فوج ہر کام میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرتی ہے۔ کہنے لگے کہ مجھے کوئی ایک ملک ایسا بتا دو کہ جہاں فوج کا کردار نہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ اور بھارت کی مثالیں بھی دیکھ لو۔ فوج ملک کی نہ صرف سیکیورٹی کی ذمہ دار ہوتی ہے بلکہ ملکی انفارمیشن، کمیونیکیشن، ریلوے، انٹرنل ایکسٹرنل اُمور، نیز ہر طرح کے اُمور میں فوج کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کافی امور میں دسترس تھی مگر تھے وہ بھی جاگیردار اور سامراجی سوچ کے مالک اور اس کا واضح فرق سمجھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد پہلی بار جی ایچ کیو آئے تو بریفنگ 6گھنٹے تک جاری رہی جب کہ اصولاً وہ بریفنگ صرف 45 منٹ کی تھی۔  زندگی میں پہلی بار کسی وزیراعظم نے ان سے اتنے سوال کیے۔ کئی بار چائے آئی اور ٹھنڈی ہونے کی وجہ سے واپس بھیجی گئی۔ ایسی ہی صورت حال آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بھی پیش آئی۔ یہ سو فیصد درست ہے کہ عمران خان اس ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے ہاتھ صاف ستھرے ہیں۔ بدقسمتی صرف ایک ہی ہے کہ یہ نظام عمران خان کو چلنے نہیں دے رہا اور ماضی کی سیاسی حکومتوں نے ہر چیز کو دائو پر لگا کر بیرون ملک اپنی ذاتی لابنگز مضبوط کیں اور آج وہی قوتیں ہمارے ملکی مفادت میں کسی نہ کسی طرح سے مداخلت کرتی ہیں اور کہیں کہیں ہم مجبور بھی ہو جاتے ہیں۔ این آر او میں بدنامی پرویز مشرف کے حصہ میں آئی مگر کنڈالیزا رائس اور دیگر کئی لوگوں کی کتابیں پڑھ لیں تو آپ کو حقیقت سے آگاہی ملے گی۔ ہاں پنجاب اور کے پی کے کے وزرائے اعلیٰ کے معاملہ میں عمران خان نے لچک نہ دکھائی مگر اب  انہوں نے بھی محسوس کیا ہے کہ پانی سر سے گذرتا جا رہا ہے۔ اور گورننس متاثر ہوتی جا رہی ہے۔ چنانچہ اُمید کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں انشاء اللہ حالات بہتری کی طرف آئیں گے۔ پی ڈی ایم کی تدفین کے بعد اب قُل بھی ہو چکا ہے۔ اگر آپ امریکہ کے حالیہ الیکشن اور اُس کے بعد کے صورتحال دیکھیں تو یوں گمان ہو رہا تھا کہ سب سے بڑی سپر طاقت انارکی اور افراتفری کی طرف جا رہی ہے۔ مگر اسٹیٹ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اور ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی نام بھی لینے والا نہیں۔ یہ ہمارا ملک ہی ہے جس میں ہر طرح کا شور شرابہ ہوا ہے۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ عوام کو مہنگائی سے نکالنے، معیشت درست کرنے اور مختلف طرح کے مافیا کو ختم کرنے میں ایک روڈ میپ دیتی، حکومتی وقت کی مدد کرتی مگر محض شور شرابا، مہذب ملکوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ صرف زبانی جمع تفریق سے کیا فائدہ!  

ای پیپر دی نیشن