اسلام آباد (عترت جعفری، نمائندہ خصوصی، خبرنگار، رپورٹنگ ٹیم، نامہ نگار) ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی۔ عمران حکومت ختم ہوگئی جبکہ اس سے قبل سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے استعفے دے دیئے۔ عمران خان ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں ، جو 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد اپوزیشن کی پیش کر دہ تحریک عدم اعتماد کا نشانہ بنے اور سابق وزیر اعظم بن گئے، جبکہ اسد قیصر ملک کے 21 ویںسپیکر تھے، انہوں نے منصب 176ووٹ لے کر حاصل کیا تھا، عمران خان تین سال سات ماہ اور 22 روز وزیراعظم رہے، ان کے دور میں ملک کو سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا رہا، ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں، پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا پڑا، کرونا وبا آئی جس کی وجہ سے ملک کو معاشی استحکام کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا، ڈالر کی قیمت بہت زیادہ بڑھی اور ان کے سارے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پریشان کن صورتحال پیدا کئے رکھی، ان کے دور میں دھرنے بھی ہوئے، تاہم منتشر اپوزیشن متحد ہو ئی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوئی، اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی کے باعث حکومت کی اتحادی جماعتوں کو توڑنے میں کامیاب ہوئی، وہ ملک کے پہلے وزیراعظم بھی بنے جنہوں نے قبل از وقت اسمبلی کو توڑا جس کو سپریم کورٹ نے بحال کر دیا اور وہی اسمبلی نے ان کو ووٹ آئوٹ کر دیا۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے سپیکر اسدقیصر نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا، اس طرح وہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کیلئے اہل نہیں رہے، اسدقیصر نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان قومی اسمبلی کے اندر کیا، انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس آگے بڑھانے کے لئے پینل آف چیئر مین سر دار ایاز صادق کو نامزد کیا، اسد قیصر کے استعفیٰ کے بعد ان کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے داخل کی جانے والی تحریک عدم اعتماد بھی غیر مؤثر ہو گئی ہے، اسد قیصر نے اپنے مستعفی ہونے سے پہلے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ملاقات میں سپیکر نے وزیر اعظم کو بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ناگزیر ہے، انہوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ سپریم کورٹ کھل چکی ہے اور اس میں چیف جسٹس موجود ہیں، تاہم اس بات کو ترجیح دیں گے کہ وہ ووٹنگ اپنی نگرانی میں نہ کرائیں، وزیراعظم سے ملاقات سے قبل انہوں نے اپنے سٹاف سے بھی ملاقات کی تھی جس میں ان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ ہفتہ کو ووٹنگ کرانا ضروری ہے، ایوان کے اندر اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی دستاویزات دیکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے میں سپیکر کے عہدے پر قائم نہیں رہ سکتا اور استعفیٰ دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں 26 سال سے عمران خان کیساتھ رہا اورسٹوڈنٹ لائف سے تحریک انصاف کا کارکن ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، عمران خان نے ملک کی خودداری اورآزادی کے لیے ایک مؤقف اپنایا ہے اور وہ اس پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ انہوں نے بھی خط کو ایوان میں لہرا کر دکھایا اور کہا یہ خط دفتر میں موجود ہو گا، اپوزیشن لیڈر اگر اس کو دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھ لیں ،اس خط کو چیف جسٹس کو بھی ارسال کروں گا ،میں ملک کی خود مختاری کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے ،ہم سب کو ملک کی خود داری کے تحفظ کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا۔ بعد ازاں قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی پینل آف چیئرمین سردار ایاز صادق نے مکمل کروائی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پڑھ کر سنائی حکومتی ارکان نے اپنی نشستیں چھوڑ دیں اور ایوان سے باہر چلے گئے سردار ایاز صادق نے حکم دیا کہ ممبران کیلئے 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جائیں جس کے بعد قومی اسمبلی اجلاس چار منٹ کیلئے ملتوی کیا گیا اجلاس رات 12 بجکر دو منٹ پر دوبارہ شروع ہوا جس کے بعد اسمبلی کے داخلی راستے بند کر دیئے گئے تلاوت قرآن پاک کے بعد نعت شریف پڑھی گئی قومی ترانہ کے بعد اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ عمران خان کے خلاف 174 ووٹ پڑے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے موقع پر ایوان میں شیر شیر کے نعرے لگائے پینل آف چیئرمین سردار ایاز صادق نے اعلان کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں 174 ووٹ پڑے ہیں۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے عہدے کیلئے کاغذات نامزدگی طلب کر لئے گئے ذرائع کے مطابق نئے قائد ایوان کے عہدے کیلئے کاغذات نامزدگی آج دن 2 بجے تک سیکرٹری قومی اسمبلی آفس میں جمع ہوں گے اور نئے قائد ایوان کا انتخاب کل پیر کو ہوگا۔ ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کے مطابق عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں 174 ووٹ پڑے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا سردار ایاز صادق نے سپیکر کے فرائض انجام دیتے ہوئے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ اسلام آباد سے خبر نگار‘ رپورٹنگ ٹیم‘ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر ہفتے کی بجائے صبح ساڑھے دس بجے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی وقفوں کا شکار رہی۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبولؐ پڑھی گئی۔ قومی ترانہ پڑھا گیا کچھ دیر بعد ہی ساڑھے 12 بجے تک وقفہ لیا گیا لیکن اجلاس ساڑھے 12 کے بجائے اڑھائی بجے شروع ہوا۔ اس دوران ارکان اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے جس کے بعد سپیکر نے نماز عصر کیلئے شام 5 بجے وقفہ لیا نماز کے بعد اجلاس شروع ہوا تو اسے دوبارہ ساڑھے سات بجے تک افطار اور نماز کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ اجلاس دوبارہ شروع ہوا لیکن پینل آف چیئرمین امجد نیازی نے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ رات ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردیا تاکہ نماز عشاء ادا کی جاسکے۔ شہبازشریف نے قومی اسمبلی میںخطاب کرتے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کررہے ۔ انہوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے جس کو بحال کریں گے۔ دریں اثناء سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے 176 اور حکومت کے تقریبا 100 ارکان شریک ہوئے۔سپیکر اسد قیصر نے وقفہ سوالات کا آغاز کرادیا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے فلور مانگ لیا۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی بنچز سے غدار غدار کے نعرے لگے۔ سپیکر نے عالمی سازش کا ذکر کرتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے شور شرابا کیا۔ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر من و عن عمل کرونگا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر جاری رکھنے پر اصرار کیا لیکن اپوزیشن ارکان نے شور مچانا شروع کردیا۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔ اس پر سپیکر نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تحفظات سے ملاقات کرکے سپیکر کو آگاہ کرتے ہوئے فوری ووٹنگ کروانے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اجلاس کو چلانے کا مطالبہ کیا۔ اور کہا اگر آج ووٹنگ نہ ہوئی تو آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردیں گے۔ ایم ایم اے کے رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل میں صرف شہبازشریف کو دعوت آئی تھی، اپوزیشن ممبران کو بلانے والا دعوت نامہ دکھایا جائے، جناب سپیکر! ہم آئینی حق مانگ رہے ہیں، آپ خط کا مقدمہ، رولنگ بھی ہار چکے ہیں، اب اور کوئی بہانہ نہیں چلے گا، آپ ہارچکے شکست کوتسلیم کرنا چاہیے۔ اسلام آباد سے خبر نگار کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے قبل متحدہ اپوزیشن کا مشترکہ پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوا جس میں قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت عملی اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے حوالے سے مشاورت کی گئی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں شہباز شریف کے چیمبر میں ہوا جس میں آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، اختر مینگل، شاہ زین بگٹی اور دیگر اپوزیشن رہنما شریک ہوئے دوسری جانب اجلاس پر مشاورت کے لیے متحدہ اپوزیشن کے ایک وفد نے سپیکر قومی اسمبلی سے چیمبر میں ملاقات بھی کی ہے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کے ایجنڈے پر سپیکر سے مشاورت کی گئی واضح رہے پاکستان تحریک انصاف کے 22 منحرف ارکان بھی پارلیمنٹ لابی میں موجود تھے۔ متحدہ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ آج عدم اعتماد پر ووٹنگ کے علاوہ کوئی اور چیز زیر بحث لائی گئی تو وہ توہین عدالت ہوگی ۔