رمضان کریم کی برکتیں؟

رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جو رحمت ِ خداوندی سے اور مغفرت سے ہوتا ہوادوزخ سے نجات پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ’رمضان شریف میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں!‘‘ ۔ یہ وہ اسباق ہیں جو ہم سب بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔بچپن میں اس ماہ مقدس کے آغاز میں یہی لگتا کہ بس اب شیاطین قید کر دیے جائیں گے۔ ہر جانب امن کا راج ہو گا۔ تمام مسلمان بلکہ تمام انسان سکون سے رہیں گے۔ لوگ صرف سچ بولیں گے، بازاروں میں اشیاء خالص اور مقدار میں پوری ملیں گی بلکہ سستی بھی ہوں گی۔ بے ایمانی ، رشوت، ظلم ، زیادتی اور جبر تو ویسے بھی گناہ اور اللہ کے نزدیک نہایت نا پسندیدہ اعما ل ہیں ، لیکن کم از کم ایک ماہ کے لیے انسانیت کی جان ان سب سے بچی رہے گی کیونکہ ان سب کی جانب انسان کو کھینچنے والی ہستی ، یعنی ابلیس تو بے بس اور قید ہے۔ اب دودھ بغیر کیمیکل کے اور صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہوگا۔ بیمار کو دوا کی شیشی میں دوا ہی ملے گی زہر نہیں۔ نہ کہیں گرانفروشی ہو گی اور نہ ذخیرہ اندوزی۔ نہ ملاوٹ ہو گی اور نہ کوئی کم تولے گا۔ لیکن جب بچپن رخصت ہوا تو آنکھوں نے یہ حقیقت دیکھی کہ عملی طور پر کچھ بھی نہیں بدلا۔ لوگوں نے بظاہر روزے تو رکھے ہوئے ہیں لیکن دکاندار روزے کے ساتھ بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، جھوٹ ریاکاری سب پہلے جیسی نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ہر تاجر شاید سارے سال کا نفع، جائز یا ناجائز طریقے سے ایک ہی ماہ میں اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔ معاشرتی روایات کی بنا پر لوگ مجبور ہیں اور ہر کوئی عوام کی اس مجبوری کا پورا پورا فائدہ اٹھاتا نظر آ رہا ہے۔ 
ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ روزے ہم پر فرض کیے گئے ہیں لیکن ہم پوری آیت بھول جاتے ہیںجو کچھ اس طرح ہے ’’ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو ( البقرہ 183)‘‘۔ ہم شاید روزے رکھنے سے زیادہ رمضان منانے لگ گئے ہیں۔ ہمارا سار ا زور سحری افطاری پر ہے اور تقویٰ والا حکم ہم بھول چکے ہیں۔ علماٗ حضرات اس لفظ کی لمبی لمبی تشریحات کر چکے ہیں۔ ان کی تفصیل میں جائے بغیر میرے خیال میں اس کا آسان ترین مطلب ہے ’’ خوف خدا‘‘ اور تقویٰ حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہمارے ہر عمل میں ، خاص طور پر تمام حقوق العباد میں ’’ خوف خدا ‘‘ کا عنصر غالب ہو۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ زکوۃ، خیرات ،عبادات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر ہماری عملی زندگیوں اور دوسروں کے ساتھ تعلقات ( چاہے تجارتی ہو ں یا معاشرتی) میں ’’ خوف خدا‘‘ نہ ہو تو کیا روزہ پورا ہو جائے گا؟
ہم اپنے ارد گرد حقیقت دیکھیں تو ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق، یعنی جہاں تک اور جتنا اس کا ہاتھ پڑتا ہے رمضان کے پہلے عشرے کو ’’ لوٹ کھسوٹ‘‘ کے عشرے کے طور پر منا رہا ہے۔۔ بہانہ طلب اور رسد کا بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ موجود تو تمام اشیأ ہوتی ہیں صرف انکے دام بڑھتے ہیں۔ کوئی بات نہیں آخری دنوں میں انہی پیسوں میں سے کچھ سے عمرہ کر لیں گے، اور سب حلال ہو جائے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کو ہمارے عمرے یا نمازوں کی ہی ضرورت ہے اور ہم اس سے یہ سودا کر لیں گے۔ دوسرا عشرے میں جو کچھ جیسے چل رہا ہے چلنے دو۔ ہمارا کیا قصور ؟ سب ہی ایسا کر رہے ہیں۔ اب دنیا کے ساتھ بھی تو چلنا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے زمانے کا نہیں بلکہ ہمارا حساب مانگنا ہے۔ اور اس کے بعد آخری دنوں میں ناجائز منافع خوری اور بے ایمانی کو مزید دوگنا یا تین گنا کر دینا مجبوری ہے کیونکہ عید کے خرچے سر پر ہیں۔ رحمتوں کے مہینے میں جب رحمتیں سمیٹنے کے یہ انداز ہوں گے تو کیسی رحمت اور کہاں کی برکت؟ تاجر ، دکاندار ، افسران تو اپنی جگہ ، عام لوگ سڑکوں پر کیا کچھ کرتے نظر آتے ہیں؟ ’’ خوف خدا‘‘ کی بجائے افطار پارٹی میں پہنچنے میں دیر ہو جانے کے ڈر سے سڑکوں پر ایک دوسرے کے راستے کا حق مارتے، گالم گلوچ کرتے ’’ روزے دار ‘‘ ہر چوک میں وافر تعداد میں ملتے ہیں۔ اور پیٹ کے ساتھ نظر، ہاتھ، زبان اور سوچ کا روزہ رکھنے والا کوئی نہیں ملتا۔
 دنیا میں قحط بھی ہے اور خود غرضی بھی۔ جنگیں بھی چل رہی ہیں اور انسان اور انسانیت کا قتل عام بھی ہو رہا ہے۔ جس ملک کے پاس طاقت ہے وہ کمزور ملک کا حق دبانے کی کوشش میں ہے۔ انفرادی سے لے کر ملکی اور عالمی سطح تک سب ویسا ہی ہے۔ اگر شیاطین قید ہیں تو یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟
 رمضان المبارک کی برکات ہمارے معاشرے اور ملک پرکیوں نہیں برس رہیں؟ اللہ نے جس شیطان کو مہلت دی تھی، یعنی ابلیس ، وہ قید کر دیا گیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ یہ دیکھ رہا ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنے اندر کے شیطان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ رسول اکرم ؐ نے صرف بھوکا رہنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ ’’جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اسکے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جائیں گے (بخاری و مسلم)‘‘۔ ہم ایمان اور احتساب بھول کر صرف بھوکا رہ کر اپنے ماضی اور مستقبل کے گناہ معاف کروانے کے چکر میں لگے ہیں۔ اور ہمارے نفس اور اندر کی طمع اس مہینے میں اپنی کارکردگی سے اصل شیطان کو شرمندہ کر رہی ہوتی ہے۔
کوئی ماں اپنے بچے کی ایک منٹ کی بھوک برداشت نہیں کر سکتی ۔ ہم سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والی ذات تو تمام کائنات کی خالق اور رازق ہے۔ اس ذات کو اپنی مخلوق میں سے کسی کو پورا دن بھوکا پیاسا رکھنے میں بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ جسمانی طور پر بھوکا پیاسا رہنا بے شک روزہ کی بنیادی شرائط میں سے ہے مگر اصل روزہ دار صرف وہ ہے جو اپنے اندر کے شیطان اور نفس کو بھوکا پیاسا رکھ کر مار دے ۔ یا کم از کم اتنا کمزور کر دے کہ اس کا نفس اور شیطان اگلے گیارہ ماہ تک سر نہ اٹھا سکے۔ رمضان کریم تو دراصل اس سب کے لیے ایک Intensive Course کی طرح ہے کہ ہم اس مہینے میں اپنے اپنے نفس اور اپنے اندر چھپے شیطان کو بھوکا پیاسا رکھ کر مارنے کی تربیت حاصل کریں اور پھر اگلے رمضان کے آنے تک اس تربیت کا فائدہ اٹھاتے رہیں۔
 کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم روزانہ افطاری سے قبل صرف پانچ منٹ خاموش بیٹھ کر یہ سوچیں کہ ہم نے روزہ میں بھوکا پیاسا رہنے، اور عبادات کے علاوہ کوئی ایک چھوٹا سا کام صرف اللہ کی مخلوق (حقوق العباد) کے لیے کیا؟ زیادہ نہیں تو کسی کی چھوٹی سی غلطی ہی معاف کر دی ہو؟ اور کچھ نہیں تو راہ چلتے یا افطار کے لیے گھر جاتے ہوئے صرف یہ سوچ کر کسی کو پہلے راستہ دے دیا ہو کہ وہ بھی مسلمان ہے اور شاید روزے سے ہو؟ صرف یہی وہ سوچ ہے جو انسان اور شیطان کے درمیان ’’ رمضان ‘‘ کی دیوار کھڑا کر سکتی ہے۔ باقی سب بیکار ہے!

ای پیپر دی نیشن