وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں،بعض قریب ترین ساتھی بھی یک طرفہ انتخابی اصلاحات اور فیصلوں کو بنیاد بنا کر علم بغاوت بلند کر چکے ہیں،اعلیٰ عدالتی فیصلے کے بعدتبدیلی سرکار کیلئے آئینی مدت پوری کرنا ناممکن ہوچکاہے موجودہ حالات میں ملک کو ہر قسم کے بحران سے بچانے کیلئے قبل ازوقت انتخابات کا آپشن ہی رہ گیا ۔پاکستانی سیاست میں کردار نہیں چہرے بدلتے ہیں اور یہ سب چلتا رہے گالیکن اس وقت پاکستان کو درپیش بڑا مسئلہ وہ خفیہ مراسلہ ہے جو مبینہ طور پر پاکستانی حکومت کو بھیجا گیا ہے یقینا پاکستان کو دھمکی آمیز خط بھیجنا ملکی وقار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے ۔سرکار کے مطابق خط میں معنوی طور پر لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں ملک و قوم کی بقا ہے ، غدار ممبران کو ساتھ ملا کر پاکستان سرکار گرانے کی عالمی سازش کی جارہی ہے کیونکہ عمران خان وہ واحد با اختیارپاکستانی سیاستدان ہیں جو ایبسلوٹلی ناٹ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں جو کہ اس پالیسی کی جسارت بھٹو اور قائد اعظم کے سوا کسی نے نہیں کی بایں وجہ عمران خان بین الاقوامی سامراج کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔
حیرت ہے کہ مبینہ مراسلے کو کوئی سنجیدہ نہیں لے رہا شاید اس لئے کہ پاکستانی سیاست میں خطوط کو وہی مقام حاصل ہے جو عدالت میں گواہان کو ہے ۔ابھی تک سیاسی خطوط کی دو اقسام زیادہ تر دیکھی گئی ہیں ۔جن میں ایک قطری اور دوسرا خطری ہے لیکن اب تیسری قسم چکری سامنے آئی ہے جسے کرسی بچائو گھن چکر سمجھا جا رہا ہے کیونکہ وہ شخص جس کا دعوی تھا کہ مغرب کو اس سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا بلکہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے معاہدے کو اسلئے ختم کیا گیا کہ یورپی یونین سے تعلقات خراب ہوجائیں گے اور معیشت ڈوب جائے گی وہ سر عام کہہ رہا ہے کہ میں اس دور کا بھٹو ہوں سرکار بضد ہے کہ روسی دورہ نا قابل برداشت ہے اس لئے ان کو ہٹانے کا ٹاسک غداروں کو سونپا گیا ہے اور باہر سے پیسہ آیا ہے۔واضح رہے کہ بھٹو کو جو دھمکی دی گئی تھی اسکی وجہ یہ تھی کہ سامراج کبھی نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان جیسا غریب ملک جسے وجود میں آئے چند برس ہوئے ہیںنیو کلیئر پاور بن جائے تفصیلات سے تاریخی علم رکھنے والے آگاہ ہیں ۔
دلچسپ یہ ہے کہ سازشی مراسلہ تب سامنے آیا جب صف بندیاں واضح ہوگئیں اور کہ کیا یار اور کیا وفادار اکثر متحدہ اپوزیشن کی صفوں میں جا بیٹھے وگرنہ پیسہ باہر سے آیا ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ غداروں کو گرفتار کر کے سر عام سزا نہ دی جاتی لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ الٹا خط کو سیاسی ساکھ بچانے اور عوامی ہمدردی بٹورنے کیلئے استعمال کیا گیا بالفرض مراسلے کے مندرجات امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کے تحریر کردہ اور امریکہ آفیشلز کے ساتھ میٹنگ کے نکات پر مبنی ہیں تو بھی یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ یورپ و امریکہ امت مسلمہ کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے اور جس قسم کا لب ولہجہ یورپی یونین کیلئے استعمال ہورہا تھا ایسے میں احتجاجی خط آبھی سکتا تھا پھر بھی دوراندیشی کا تقاضا تھا کہ وزیرخارجہ کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا جاتا یقینا بروقت قوت فیصلہ اور دوراندیشی کی صلاحیت نہ ہونے سے بھی نقصان ہوا ہے وہ تبدیلی سرکار جو کل تک نظریے کی قائل تھی آج خود کو بچانے کیلئے نظریہ ضرورت کے تحت سب دینے اور ہر ممکن ہربہ استعمال کرے کو تیار ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ غریب عوام کی خاموش آہیں لگ گئی ہیں ۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ہم انتخابات کی طرف جا رہے ہیں اور بین الاقوامی سامراج سازش سلوگن نیا نہیں ماضی میں بھی حکومتوں نے اسے استعمال کیا اورسادہ لوح افراد متاثر ہوئے یقینا یہ بہت بکے گا چونکہ پاکستانی عوام کا ایک مسئلہ ہے کہ اکثریت مذہب اور وطن سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے لیکن مذہب کے مطابق زندگی گزارنا قبول نہیں کیونکہ ذاتی مفادات کے حصول پر ضرب پڑتی ہے اور اسی وابستگی کو بعض نام نہاد ڈبہ پیران و سیاسی و مذہبی مبلغان استعمال کر کے ذاتی مفادات حاصل کرتے رہتے ہیں خاص طور پر نوجوانوں کو شیشے میں اتارنے کیلئے ایسے سلوگنز کا استعمال عام ہے تو تبدیلی سرکار نے مذہبیت اور وطنیت کا سہارا لیکر اپنے ووٹر کو باور کروایا ہے کہ صرف وہی محب وطن اور نیک ہیں باقی سبھی سیاستدان ضمیر فروش اور بکائو ہیں اور آپ نے چہرے نہیں بھولنے اور نہ ہی انھیں معاف کرنا ہے بظاہر تو خان صاحب اپنے ووٹر کو اگلے الیکشن کیلئے سلوگن دیاہے حقیقت یہ ہے کہ یہ یقینا بہت خطرناک نتائج سامنے لا سکتا ہے۔سیاستدانوں کو سیاسی شہید بننے کیلئے جمہوریت کے شہید چاہیے ہوتے ہیں ایسے میں لامحالہ فوج کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ شاید خان صاحب یہی تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ’’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ تو قیاس ہے کہ تبدیلی گئی تو جمہوریت بھی لے جائیگی کیونکہ عوام کو اکسایا جا رہا ہے کہ آئو اوردنیا کو بتا دو کہ اس ملک کا وزیراعظم عوام نے چننا ہے یہ تو وقت بتائے گا کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا البتہ تبدیلی سرکار نے سرپرائیز کے چکر میں خفیہ مراسلے کا جو پنڈوررا بکس کھولا ہے یہ قابل تشویش ہے یقینا اس اقدام سے ملکی مفاد اور سفارتی تعلقات پر جو اثر پڑیگا وہ بھی ایک سرپرائیز ہوگا کیونکہ ہم چین کی طرح قوم نہیں جو خاک سے اٹھا اور افق پر چھا گیا بلکہ ہم وہ قوم ہیں جو قرضوں ،امداد اور اتحادوں پر پل رہی ہے۔