ماہِ صیام کی برکتیں اور معاشرتی تبدیلی

Apr 10, 2022

جنرل ضیاء نے ایک دفعہ حاجیوں کے بحری جہاز سفینہء عرب کا استقبال کیا اور حاجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر سال ہزاروں پاکستانی حج کر کے مکّہ و مدینہ سے واپس آتے ہیں اور نیکی و پاکیزگی اختیار کرنے کے بعد ہمارے معاشرے کا دوبارہ حصّہ بنتے ہیں مگر معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ معاشرتی برائیوں یعنی جھوٹ ، بے ایمانی ، چوری ، ڈکیتی ، قتل ،ملاوٹ ، ذخیرہ اندو زی  اور رشوت ستانی میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوتی بلکہ ہر آنے والے دن میں ان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ کیا کسی بھی حسّاس اور باشعور آدمی کے لیے یہ امر قابلِ فہم ہے کہ ہزاروں لاکھوں افراد کے ہر سال حج و عمرہ کرنے اور توبہ تائب ہونے کے باوجود معاشرہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور معاشرتی برائیاں اور جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جاتے ہیں ۔راقم کو یہ واقعہ حالیہ ماہِ  صیام میں لوگوں  اورمیڈیا کا گزشتہ برسوں سے بھی زیادہ نماز و تراویح ، سحر و افطار اور دینی پراگرموں میں جوش و خروش دیکھ کر یاد آیا ۔ سچی بات ہے کہ جب ہم اپنے اردگرد اور ٹی وی پر لوگوں کا روزہ رکھنے ، سحر و افطار ، نمازوتراویح کے لیے اتنا جوش و جذبہ دیکھتے ہیں تو دل بہت خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو اتنے خلوص ،محبت اور صدقِ دل سے اتنی بڑی تعداد میں ہم سب صبح و شام پکاریں گے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی رحمت جوش نہ مارے اور ہماری بدقسمت قوم کے مصائب و آلام کے خاتمہ کی معجزانہ صورتیں پیدا ہونا نہ شروع ہو جائیں  مگر قارئین کرام! یہ سوچ کر دل بجھ سا جاتا ہے کہ نہ جانے کیوں ہر سال اتنی شدید گرمی کے روزے رکھنے ، کروڑوں لوگوں کے بڑے اہتمام کے ساتھ نمازیں پڑھنے ، اربوں روپے زکوٰۃ دینے ، لاکھوں لوگوں  کے معتکف ہونے اور حج و عمرے کا فریضہ ادا کرنے کے باوجود نہ قوم کے مصائب و آلام میں کمی کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے نہ معاشرے میں برائیوں اور جرائم میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ اور تو اور ابھی اِنھی دنوں مارکیٹ میں جا کر دیکھ لیجئے ، آپ دال سبزی خریدیں ، گھر کا ضروری سودا سلف لائیں ، بچّوں کے لیے عید کے کپڑے خریدنا چاہیں ، یہاں تک کہ افطار کے لیے پاو بھر کھجوریں خریدیں آپ کو چیزوں کے معیار میں دو نمبری اور قیمتوں میں بے ایمانی وظلم دکھائی دے گا۔ ہر دکان دار کی اپنی قیمتیں ہیں۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ خدا کا خوف ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اسلامی عبادات یعنی نماز ، زکوۃٰ اور حج جیسی خوبصورت اور روحِ انسانی پر براہِ راست اور فوری اثر کرنے والی عبادات دنیا کے کسی مذہب کے پا س نہیں ۔ دوسرے مذاہب کے لوگ اِسلامی عبادات کے روح پرور مناظر کو رشک سے دیکھتے ہیں۔ مگر اِس کا کیا کیجئے کہ مسلمانوں میں اِن عبادات کے حوالے سے ریاکاری اور دکھاوے کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر کی نمازیں اور روزے نہ تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے جوڑتے ہیں نہ وہ نتائج یعنی پاکیزگی و طہارت ، سچائی و ایمانداری ، صبر و رواداری  اور اَخلاق  و  شائستگی ہی پیدا کرتے ہیں جو اِن عبادات کا حقیقی مقصد ہیں وجہ یہ ہے کہ ہم عبادات اِن مقاصد کے حصول کے لیے کرتے ہی نہیں۔ہم تو محض دکھاوے کے لیے یہ سب کرتے ہیں یہی قرآنِ کریم کی سورہ ماعون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔‘‘یہی نہیں ہم میں سے بہت سوں نے صرف ان عبادات ہی کو یعنی نماز ، روزے کو ہی مقصد سمجھ رکھا ہے۔ بس نمازیں پڑھیں ، رمضان کے روزے رکھے اور فرض ادا ہو گیا۔ 
بد زبانی و بد اَخلاقی ویسے کی ویسے ہی رہی۔جھوٹ فریب اور بے ایمانی ، ذخیرہ اندوزی و چور بازاری اور رشوت ستانی کی لعنت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی گئی ۔ ایک دفعہ    محّلے کے دکاندار کو منہ پیچھے کر کے سگرٹ پیتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ بھائی روزہ نہیں رکھا۔ فرمانے لگے ہم نے سارا دن دکان پر سو جھوٹ بولنے ہوتے ہیں روزہ رکھنے کا کیا فائدہ؟ عرض کیا تو آپ روزہ رکھا کریں اور جھوٹ نہ بولیں ۔ سچّائی اور ایمانداری اپنا لیں ۔ بے شرمی سے ہنستے ہوئے جواب دیا جھوٹ نہ بولیں تو پھر کاروبار نہیں ہو سکتا۔ اب جہاں لوگوں کے خیالات یہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں اپنے جھوٹ فریب کو اپنا رازق سمجھتے ہوں وہاں اِصلاح کی کوئی صورت بھلا کیسے پیدا ہو؟ اب تو خیر بھلا ہو ٹی وی چینل کا کہ ہر بات، ہر تہوار کو بہت ہائی لائٹ کیا جاتا ہے، تاہم لگتا یونہی ہے کہ ہر سال جیسے ہم تنزل کے اگلے درجہ پر ’’ ترقی‘‘ پا گئے ہیں۔ اب لوگ بڑی شد ومد سے نمازیں بھی پڑھے جاتے ہیں ، روزے بھی رکھے جاتے ہیں ، جھوٹ بھی بولے جاتے ہیں ، بدیانتی بھی کیے جاتے ہیں ، چوری ، ڈاکے اور قتل و غارت گری کابازار رمضان میں بھی گرم بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گرم رہتا ہے۔معزز قارئین حیرت تو اِس بات میں ہے کہ عبادات کے لیے اتنے جوش و جذبے کے باوجود نہ تو رحمتِ خداوندی کو جوش آتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں تبدیلی پیدا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ تو پھر حقیقت یہی ہے کہ جہاں لوگ عبادات محض دکھاوے کے لیے کریں گے یا عبادات برائے عبادات ہی کریں گے، عبادات برائے اصلاح ِ نفس نہیں کریں گے، جھوٹ ، فریب، مکرو دغا دوسروں کے حقوق کی پامالی اور فساد میں اسی طرح ملوّث رہیں گے وہاں کے روزے ، نمازیں اور عبادات رحمتِ خداوندی کو جنبش نہیں دیا کرتے اور جو عبادت بھی خواہ وہ نماز ہو،روزہ ہو یا حج ہماری دلی کیفیت میں تبدیلی پیدا نہ کرے اور یہ تبدیلی بحیثیتِ مجموعی معاشرتی تبدیلی کی صورت اختیار نہ کرے تو وہ محض شور و غوغا ہے ، دکھاوا ہے اور کچھ نہیں۔

مزیدخبریں