انٹیلی جنس اداروں نے بلوچستان کے ضلع پنجگور سے بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے بانی گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کرلیا ہے جو یقینا خفیہ اداروں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اسی لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس گرفتاری پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو مبارکباد دیتے ہوئے سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ یہ آپریشن ہمارے اداروں کی اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ گرفتاری بلوچستان میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں مدد ملے گی اور امن کے نئے دور کی آئینہ دار ہوگی تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سے عوامل بلوچستان میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں اور ان عوامل پر کن اقدامات کے ذریعے مستقل طور پر قابو پا کر بلوچ عوام کو شر پسند عناصر کے منفی پروپیگنڈے سے متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور اس سے جڑی ہوئی عسکریت پسندی چند برس پہلے شروع نہیں ہوئیں بلکہ ان کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بلوچ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے مختلف طرح کے منصوبوں کا اعلان تو کیا تاہم ان میں سے کسی بھی منصوبے پر اعلان کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے بلوچ عوام کی محرومیاں مسلسل بڑھتی چلی گئیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ آج بھی بلوچستان کے زیادہ تر اضلاع میں عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور عوام کسمپرسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ سہولیات کے اسی فقدان نے مولانا ہدایت الرحمن کی شکل میں ایک ایسی آواز پیدا کی جو بلوچ عوام کے لیے حق مانگ رہی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن کی ’حق دو تحریک‘ جن مسائل کی طرف سے اشارہ کررہی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کے حل پر توجہ دے کر بلوچ عوام کے دلوں میں پاکستان کی محبت کو مستحکم کرنے میں مثبت کردار ادا کرے۔
کئی مواقع پر یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ مسائل اور مشکلات میں گھرے بلوچ عوام کو جو عسکریت پسند تنظیمیں اور گروہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں انھیں بھارت کی حمایت حاصل ہے ۔ بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن سدھیر یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری اور بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ (را) کے ایما پر پاکستان میں عسکریت پسند گروہوں کو مالی و عملی امداد دینے سے متعلق اعتراف بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے علاوہ بھی پاکستان کے پاس ایسے بہت سے ثبوت اور شواہد موجود ہیں جن سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ بھارت پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے شر پسند عناصر کو استعمال کررہا ہے۔ پاکستان نے یہ سارے ثبوت صرف حد تک ہی محدود نہیں رکھے بلکہ ان میں سے بہت سے ثبوت امریکی دفتر خارجہ سمیت عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کو ڈوزیئرز کی شکل میں مہیا کیے جاچکے ہیں۔
جن مسائل کی وجہ سے بھارت اور اس کے امداد یافتہ عناصر کو بلوچ عوام کے دلوں پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کا موقع ملتا ہے انھیں حل کر کے ہماری حکومت یہ جنگ جیت سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک جامع حکمت عملی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔ اس مشاورتی عمل میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو سب سے زیادہ نمائندگی دی جانی چاہیے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ بلوچ عوام کو ایسے کون سے مسائل اور مشکلات درپیش ہیں جن کا حل فوری طور پر فراہم کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ پون صدی کے دوران مسلسل وعدے اور دعوے کر کے سیاسی قیادت نے بلوچ عوام کو یہ احساس دلایا ہے کہ ان کے مسائل کے لیے اعلانات تو کیے جاسکتے ہیں لیکن انھیں حل کرنے کے لیے کسی بھی سطح پر ٹھوس اقدامات ہرگز نہیں کیے جائیں گے۔ دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ اس رویے نے بھی صورتحال کو بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے۔
معاملات کو سدھارنے کے لیے اب گلزار امام عرف شمبے کی گرفتاری کی شکل میں ایک سنہری موقع پیدا ہوا ہے ۔ اس گرفتاری سے بلوچستان میں عسکریت پسند عناصر کو شدید دھچکا لگا ہے کیونکہ وہ مختلف عسکریت پسند تنظیموں کے مابین اتحاد پیدا کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کررہا تھا۔ سکیورٹی اداروں نے شمبے کو گرفتار کر کے عسکریت پسند حلقوں کے مابین ایک بڑا خلا پیدا کردیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائے اور آگے بڑھ کر بلوچ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سارے سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب تک معدنیات کی دولت سے مالا مال اس صوبے کے عوام کے مسائل حل نہیں کیے جائیں گے تب تک علیحدگی پسند اور عسکریت پسند عناصر اپنے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے انھیں پاکستان سے متنفر کرتے رہیں گے اور اس صورتحال میں پاکستان اپنے اس صوبے کے وسائل سے کسی بھی طرح کا فائدہ نہیں اٹھاسکے گا۔