ہم بچپن سے پڑھ رہے ہیں کہ حضرت محمد ؐ کا ہر عمل ہمارے لیے اسوہ حسنہ یعنی بہترین عمل ہے ۔ جیسے آج کل میرے ملک کے حالات ہو چکے ہیں عوام اپنے سیاسی راہنماوں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور ہر دوسرے محکمے کے لوگوں سے متنفر ہورہی ہے۔ ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ کسی بڑے عہدے پر بیٹھنے کے خواہش مندوں کو پابند کیا جائے کہ وہ پہلے حضرت محمدؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں پھر لوگوں کی فلاح کے لیے میدان عمل میں آئیں۔ نبی پاک ؐ کے اعلان نبوت سے پہلے آپؐ کا ایسا مضبوط کردار تھا کہ اپنے پرائے ہر کوئی آپ کو صادق و امین مانتا تھا۔ آپؐ کا کردار تھا کہ لوگ باپ دادا کے دین کو چھوڑ کے دین حق قبول کرتے رہے۔
مکہ میں کفار کے مظالم جب حد سے بڑھ گئے تو حضرت محمدﷺ رب کے حکم سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ حجرت کرگئے۔اس کے باوجودکفار مسلمانوں کو تنگ کرنے کے مختلف بہانے تراشتے رہتے۔کفار مکہ کی ایک اہم شاہرہ مدینہ کی حدود میں سے ہوکے گزرتی تھی۔ مسلمانوں کو جب یہ خبر ہوئی کہ شام سے ابو سفیان کی قیادت میں ایک بڑا تجارتی قافلہ سامان تجارت لے کے مکہ جارہا ہے۔ جیسے آج کے دور میں بھی یہ دستور ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک کی حدود بنا اجازت استعمال نہیں کرسکتا ہے ویسے ہی یہ فیصلہ ہوا کہ جب کفار مسلمانوں کو اذیت دینے میں پیش پیش رہتے ہیں تو پھر انہیں اپنی حدود بھی کیوں استعمال کرنے دی جائیں، قافلے کی اطلاع ملی تو مسلمان حضورﷺ کی قیادت میں اس قافلے کو روکنے کے لیے تیار ہوئے۔ مسلمان باقاعدہ کسی جنگ کے لیے گھر سے نہ نکلے تھے۔313 کے لشکر میں2 گھوڑے، 70 اونٹ اور باقی پیدل سوار۔ ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا ،تو اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قریش جیسے موقع کی تلاش میں تھے۔ ابو جہل کی قیادت میں ایک بڑا لشکر تیار ہوگیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو حق پرہے اس کو فتح عطا کراور جو برسر ظلم ہو اسے تباہ کر‘‘ (یعنی اللہ کو ابو جہل بھی مانتا تھا، کعبہ کی حرمت کا بھی قائل تھا۔ کعبہ کے دروازے اس کے لیے بھی کھلتے تھے۔) چنانچہ غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ کون حق پرہے اور باطل پر کون ہے۔ مدینے میں کفار کے لشکر کی خبر پہنچی۔ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ فرمایا کہ تجارتی قافلہ اور قریشی لشکر میں ایک ضرور مفتوح ہو گا۔ فیصلہ ہوا کہ تجارتی قافلے کی بجائے کفار کا مقابلہ کیا جائیگا۔ یعنی آسان کے بجائے مسلمانوں نے مشکل کام کو ترجیع دی۔
حضور نبی اکرم ؐنے اپنے اصحاب کو جنگ کے تیار کیا ۔صف بندی کی۔ پھر بڑے ناز سے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے۔ ’’اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کیساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسولؐ کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی‘‘ اس کے جواب میں اللہ تعالٰیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی۔
ا ب آتے ہیں ہم اپنے آج کے حکمرانوں کی طرف ۔جن کا کردار و قول ہمارے سامنے ہے ۔ ریاست سے وفاداری کی ایسی مثال دنیا میں شاید کہیں نہ ہو کہ اشرافیہ اور طاقتور طبقہ اپنی آمدن کے حساب سے پورا پورا ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں فائلر اورنان فائلر جیسا قانون ہے یعنی بہت سے شہری کہتے ہیں ہم ریاستی قوانین کو نہیں مانتے۔ ہم اپنی دولت کا حساب نہیں دیتے۔ ہم یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے پیسہ کیسے کمایا ہے کتنے اثاثے بنائے ہیں۔ جواب میں ریاست کے قانون نافظ کرنے والے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ نان فائلروں سے بس اتنا ہی کہتے ہیں جب کروڑ کی گاڑی لو گے تو دس لاکھ رجسٹریشن فیس زیادہ دے دینا۔حد ہے ریاست کسی شہری سے یہ نہیں پوچھتی ہے کہ اتنی مہنگی گاڑی لینے کے لیے پیسہ کہاں سے اور کیسے کمایا۔ گاڑی کے لیے فیول کہاں سے آئے گا۔ کروڑ کی گاڑی لینے والا بندہ اپنے باقی اخراجات کیسے پورے کرتا ہے؟ عالیشان محلوں میں رہنے والے،ملکی دولت لوٹ کے منی لانڈنگ کے زریعے باہر منتقل کرنے والے تب تک ایسا کرتے رہیں گے جب تک عوام سوچ نہیں بدلتی۔ لفاظی سے نکل کے دلیل سے عوام کو اپنے لیڈروں سے سوال کرنے ہونگے۔
حیرت ہے جس ملک کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے سڑکوں پر رُل رہے ہیں۔ آٹے کے لیے لائنوں میں لگے شہید ہورہے ہیں اس ملک کے لیڈر ریاستی نمائندگی کے دوران ملنے والے تحفے اونے پونے داموں گھر لے جارہے ہیں۔ اب سوال تو بنتا ہے نا کیوں کوئی توشہ خانہ عوام کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ اسکی بس ایک ہی وجہ ہے ہم پہ مسلط ہو جانے والے جھوٹے، فریبی، مکار، دغاباز اور مفاد پرست ہیں۔ انہیں ریاست کی یا عام شہریوں کی نہیں بلکہ اپنے اثاثے بڑھانے کی فکر ہوتی ہے۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو۔ جب اپنے مفادات ہوں، تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ عوام اس سب کے باوجود انہیں اپنا مسیحا مانتے ہیں۔ ہماری قسمت میں ہیں تب تک کم بے ایمانوں کوووٹ دینا ہوگا۔ لیکن اصل حل تب ہی نکلے گا جب عوام الیکشن میں اپنے نمائندوں سے پوچھے کہ جناب یہ بتائیے آپ یہ جو لگژری لائف جی رہے ہیں یہ کیسے ممکن ہے۔