روزہ حصولِ تقویٰ کا ذریعہ

  
 تبلیغ.... چوہدری محمد جمشید خاں                                   cjkhan1003@gmail.com

 اللہ تبارک تعالی نے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا ترجمہ:اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیزگار بن جا و¿۔اس آیت ِ مبار کہ میں فرمایاکہ سابقہ اُمتوںکی طرح امت محمدی پر بھی روزے فرض کئے گئے ہیںجس کا بنیادی مقصدتقویٰ و پرہیزگاری، قلب و نفس کی صفائی و پاکیزگی ہے۔روزے کے شرعی معنی یہ ہیں کہ صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور اسلام نے جن باقی چیزوں سے منع کیاہے اُن سے بچا جائے۔شریعت میں تقویٰ کے عمومی معنی یہ ہیںکہ نفس کو عذاب کا سبب بننے والے عوامل یعنی ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ،ظاہری وباطنی گناہوں سے بچایا جائے۔تقویٰ کی ایک بنیاد یہ ہے کہ آدمی کے ذہین میں یہ احساس بیدار ہوکہ اسے ہر کام میں اللہ تبارک تعالی کی مرضی ومنشا کواپنی خواہشات پر ترجیح دینی ہے اور یہ نعمت روزہ سے حاصل ہوتی ہے کہ روزہ کی حالت میں نفس کے بنیادی مطالبات کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل کواللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی پر قربان کر دیناہے،یہی سوچ اور سُپردگی تقویٰ کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ روزہ سے بندے کے دل میںعبادت کی خاص رُوح پیدا ہوتی ہے۔رسولِ مقبول کا ارشادِ پاک ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت یوں کرو جیسے تم خُدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ یقین رکھوکہ خُد ا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
 روزہ اُس احساس کی عملی مشق ہے کہ عالمِ تنہائی میںلذیذ کھانے اور مشروبات کی لذت حاصل کرنے پرقدرت کے باوجود مذکورہ بالا احساس ہی روزہ دار کو کھانے پینے سے باز اور دُور رکھتا ہے اور رمضان المبارک کے پورے مہینہ میںاسی احساس کی بار بار مشق ہوتی ہے اور یہی نعمت اعلیٰ درجے کے حصولِ تقویٰ میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے۔تیسرا اہم عنصر گناہوں سے بچنا تقویٰ ہے او ر اس بچنے پر بآسانی قدرت حاصل ہو جانا رُوح ِ تقویٰ ہے۔ گناہوں کے ارتکاب میں بیرونی و خارجی کردار شیطان کا ہے جبکہ اندرونی معاون و مددگاری کا کردار نفس ادا کرتا ہے۔خواہشات گھوڑے کی لگام جتنی ڈھیلی ہو گی گناہوں کی سر زمین پریہ اُتنی ہی برق رفتاری سے دوڑے گا اس کے برعکس جب اس سرکش اور باغی گھوڑے کی لگام کھینچ لی جائے تو گناہوں سے بچناآسان ہو جاتا ہے۔
 اب روزے کو دیکھیںتو روزاسی ضبطِ نفس کی اعلیٰ درجے کی مشق ہے کہ نفس بھی موجود ہے اور اس کے تقاضے بھی پورے شدومد کے ساتھ زوروں پر ہیں لیکن اس کے باوجود روزے نے خواہشات کوبھرپور طریقے سے لگام ڈالی ہوئی ہے اس کے تقاضوں کو اچھی طرح دبایا ہوا ہے۔ماہ ِ رمضان میںیہ مشق پورا مہینہ بھر پور قوت کے ساتھ جاری و ساری رہتی ہے اُس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نفس پا قابو پا لیا جاتا ہے اور یہی قیمتی چیز تقویٰ کی بنیاد بنتی ہے۔ آخر میں بعض لوگوں کے ذہنوں میںیہ سوال انگٹرایاں لیتا ہے کہ معاشرہ کی اکثریت میں روزوںکے بعد تقویٰ دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ طر لوگ رمضان شریف میںروزہ کو اس کے ظاہری وباطنی آداب کا نیک نیتی سے اور پھر پور جذبوں سے مکمل خیال نہیں رکھتے اور ایسا لگتا ہے جیسے بوجھ سمجھ کر، باطنی آداب کاخیال رکھے اور گناہوں سے بچے بغیر روزے رکھے جاتے ہیںاور جیسے ہی شوال کے چاند کی خبر ان ماہر شاہ سواروں کے کانوں تک پہنچتی ہے تو یہ خواہشات کے گھوڑے کی صبر کی لگام اُسی جذبے سے ہاتھوں میں کھینچ کر پکڑ رکھنے کی بجائے اپنے یار کی رہائی کی خوشی میں لگام کو ہاتھوں سے پرے نکال پھنکتے ہیںاور اپنی شاہ سواری کی مہارت کے پھر بھرپور جلوئے دیکھاتے ہیں اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ اس سے خود اندازہ لگاہیں کہ ہم تقویٰ کی یہ دولت کیسے پا سکتے ہیں جو روزہ کا اصل مقصد ہے!!
                               

ای پیپر دی نیشن