عیدالفطر خوشنودی اور انعام الٰہی کے حصول کا دن

مولانا محمدامجد خان
اللہ رب العزت نے آخری نبی حضرت محمدؐکے ماننے والوں کیلئے جہاں عبادات کی بجا آوری کی تلقین فرمائی وہیں ان عبادات کو پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے والوں کے لیے انعامات کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔رمضان المبارک میں بندہ اللہ کی خاطر بھوک و پیاس اور قیام اللیل کے ذریعے اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے جب وہ اس ماہ مبارک کا حق ادا کرتا ہے تو اللہ رب العزت عیدالفطر کی صورت میں انعام سے نوازتا ہے۔
یوں تو اصل انعام تو آخرت میں دیا جائے گا جیسا کہ سرکاردوعالمؐ کا ارشادپاک ہے روزہ دار کیل دو خوشیاں ہیں ایک دنیاء میں افطار کے وقت اور ایک آخرت میں اپنے کریم رب سے ملاقات کے وقت ہے اور یہ خوشی اللہ کے دیدار پاک کی صورت میں ہوگی اور یہ دیدار ربانی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اسکا نعم البدل ہی نہیں ہے۔اللہ تعالی اپنے فضل سے ہمیں ان میں شامل فرمایا آمین۔لفظ عید کے لغوی مفہوم میں " لوٹنا "شامل ہے ، جہاں ہر سال اس دن کے آنے اور پلٹنے کی وجہ سے اسے عید سے موسوم کیا جاتا ہے ، وہیں مہینہ بھر کی روحانی ریاضتوں اور نفسانی واخلاقی طہارتوں وپاکیزگیوں کے بعد ایک نئی روحانی زندگی کے "عود" کر آنے کی وجہ سے بھی اس دن کو عید کہا جاتا ہے۔ یعنی رحمت ، مغفرت، اور جہنم سے خلاصی کے عشروں کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے اور گناہوں کی کثافتوں سے پاک وصاف ہوجانے کے بعد دوبارہ ایک نئی پاکیزہ زندگی عطا ہوتی ہے ؛ جس کی وجہ سے بھی اس تاریخی دن کو عید کہا جاتا ہے۔
دیگر اقوام عالم کی طرح ہماری عید محض اظہار مسرت یاعیش وعشرت کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالی کے شکر ،تقوی والی زندگی کے عہد روح وقلب کی پاکیزگی، ہمیشہ کی بندگی ، ایثار وہمدردی ،اتحاد واتفاق ، ملی اجتماعیت ووحدت، عجز وانکسار اور خشوع و خضوع کا نام ہے۔
یعنی عید صرف علامتی خوشی اور رواجی مسرت کا دن نہیں ؛ بلکہ مذہبی تہوار ، ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے۔
عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "لیلۃ الجائزۃ " اور عید الفطر کے دن کو " یوم الجَوَائِزِ" یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ سے موقوفاً مَروی ہے ،ترجمہ:عید کا دن ’’یوم الجَوَائِز‘‘ یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال) نبی کریمؐ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ، ترجمہ: بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ نے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ آپ ؐ نے دریافت فرمایا: یہ دو دن کیا (اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ کرام ؓ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ ؐ! ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے اور خوشی مناتے تھے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں کی جگہ ان سے بہتر دن مرحمت فرمائے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ الحمدللہ۔(مسنداحمد ابن حنبل)
عید الفطر کی رات بڑی فضیلت اور برکت والی ہے، یہ انعام کی رات اور اللہ تعالی سے مزدوری لینے کی رات ہے، اس رات میں اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کو رمضان کی مشقتوں ، قربانیوں اور ریاضتوں کا بدلہ دیا جاتا ہے، دعائیں مقبول ہوتی ہیں ، جنت واجب ہوتی ہے ، دل کو روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے :’’ جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اْس کا دل اْس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مْردہ ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ)
عید کے دن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت سعید بن اوس انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جب عید الفطر کا دن آتا ہے توفرشتے راستوں کے کنارے کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے گروہِ مسلمین! کرم والے رب کی بارگاہ کی طرف چلو! وہی تمہیں نیکی کی توفیق عطا فرما کر احسان فرماتا ہے۔ پھر اس نیکی پر بہت بڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔ تمہیں راتوں کو قیام کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا، دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے بھی رکھے، اور تم نے اپنے پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری کی۔ اب جزائیں سمیٹ لو۔ پھر جب لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے: سن لو! تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا ہے، خیرات و برکات سمیٹتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ کیونکہ یہ انعام و اکرام کا دن ہے۔ آسمانوں میں اس دن کا نام یوم الجائزہ (انعام کا دن) ہے۔
 عیدین کے مسنون اعمال*
(۱) شریعت کے موافق اپنی آرائش کرنا۔(۲) غسل کرنا۔(۳) مسواک کرنا۔(۴)عمدہ سے عمدہ کپڑے جوپاس موجود ہوں پہننا۔(۵)خوشبو لگانا۔ (۶) صبح کوبہت سویرے اٹھنا۔(۷)عیدگاہ میں بہت سویرے جانا۔(۸)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز جیسے چھوہارے وغیرہ کھانا۔(۹)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہء فطر دے دینا۔(۱۰)عیدکی نماز عیدگاہ میں جاکر پڑھنا۔(۱۱)جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا۔(۱۲)پیدل جانا۔(۱۳)راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبروللہ الحمد آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔اسلام میں عید کے دن صدقہ فطر نکالنے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے، حضورؐ کا ارشاد ہے: زکوۃ الفطرسے۔ غریبوں کی اس دن مالی مدد کرو اسی لئے ہر صاحب نصاب شخص پر اپنے اور اپنے زیر کفالت لوگوں کا فطرانہ ادا کرنا واجب ہے۔ صدقہ فطر عید سے پہلے رمضان میں دینا بھی جائز ہے حتی کہ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو عید کے بعد بھی دے سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن