افغانستان، ٹی ٹی پی اور پاکستان

Apr 10, 2024

سعد اختر

پاکستان ان دنوں بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف سیاسی عدم استحکام ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔ عدلیہ بھی بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات ہوئے۔ جن میں فورسز کے افسروں اور جوانوں کی شہادتیں ہوئیں۔ تاہم سیاسی و فوجی قیادت پُرعزم ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سیکورٹی فورسز کا انٹیلی جنس اطلاعات پر دہشت گردوں کے خلاف گرینڈ آپریشن جار ی ہے۔ دہشت گرد خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں اور چاغی کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر کی ہلاکت کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
یہ ایسی شورش ہے جس پر قابو پانا سول اور فوجی حکام کے لیے انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کا تعلق ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) سے ہے جنہوں نے اپنی پناہ گاہیں افغانستان میں بنا رکھی ہیں۔ افغان طالبان حکومت بھی درپردہ اِن کی مدد کر رہی ہے۔ پاکستانی حکومت اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام ان تمام حالات کو نہایت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ اگلے چند ہفتوں میں ہونیوالے مذاکرات بھی کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔ لگتا ہے پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی تیاری میں ہے۔ یہ آپریشن خیبرپختونخوا سے ملحق افغانی سرحد کے آس پاس علاقوں میں کیا جائے گا۔ پاکستانی انٹیلی جنس کے ذرائع بڑے سرگرم اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ کوشش کی جار ہی ہے ٹی ٹی پی کی تمام پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو ایئر فورس کے ذریعے تباہ کر دیا جائے۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسی ہی کارروائی میں پاکستان ایئرفورس کے ایک لڑاکا ایف 16نے افغانستان کے اندر گھس کر ٹی ٹی پی کے بیس کیمپ کو نشانہ بنایا اور چند ہی سیکنڈ میں اُسے نیست و نابود کر دیا۔ حملے میں ٹی ٹی پی کے بے شمار دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان نے افغان حکومت کو وارننگ دی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی مدد اور حمایت سے باز آ جائے ورنہ اسکے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن حکومت پاکستان کی وارننگ کو لے کر اُن میں سخت سراسیمگی پائی جاتی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے اب تک جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں اُن کا ذمہ دار ٹی ٹی پی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ خود ٹی ٹی پی بھی ان واقعات کے بعد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے جس کے بعد شک نہیں رہ جاتا کہ ان حملوں میں کوئی اور تنظیم نہیں، ٹی ٹی پی ہی ملوث ہے۔ اس تنظیم کے زیادہ تر لوگ اور مرکزی قیادت افغانستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہے۔ انہوں نے اپنے ٹھکانے پاک افغان سرحد کے قریب بنا رکھے ہیں۔ وہیں سے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور دہشتگردی کے مرتکب ہوتے ہیں۔پاکستان نے جن بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دیا، اُن میں ٹی ٹی پی بھی شامل ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغان طالبان اور انڈین ’’را‘‘ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ یہ لوگ ٹی ٹی پی کی فنڈنگ کرتے ہیں اور اسلحہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ ہے جس سے وہ پاکستانی سرزمین پرفورسز پر حملے کرتے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ’’داعش‘‘ بھی ٹی ٹی پی کی پوری مدد کر رہی ہے تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
جنگ کسی بھی فریق کے حق میں نہیںہوتی۔ شورش سے کسی کو بھی کچھ نہیں ملتا۔ یہ بس ذہن کا فتور ہے کہ دوسروں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ جو سوچ یا خیال اُن کے اپنے ذہن میں ہے اُسے ہی ٹھیک اور درست سمجھا جائے۔ یہ ایسی سوچ ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کر رکھا ہے۔ پاکستانی حالات کے تناظر میں اب دنیا بھی باور کرنے لگی ہے کہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ جسے اب بند ہونا چاہیے۔ امریکی وزارت خارجہ نے متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا اور کہا امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنے۔ پاکستان نے حالیہ دنوں میں افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کے جن ٹھکانوں کو فضائی حملے سے نشانہ بنایا امریکہ نے اُس پر اپنی آفیشل رائے کا اظہار کیا۔ ’’اگرچہ افغان سرزمین پر پاکستان نے فضائی حملہ کیا لیکن امکان نہیں کہ دونوں پڑوسیوں کے مابین کوئی تصادم یا جنگ ہو۔‘‘ تاہم امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جائزہ لے رہا ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بنے۔ دہشت گرد ہوں گے تو پوری دنیا میں دہشت گردی کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔
امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ، پاکستان کا شراکت دار ہے۔ اُسے جس قسم کی بھی مدد درکار ہو گی فراہم کی جائیگی۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین ٹی ٹی پی کے حوالے سے عالمی مبصرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی برقرار رہتی ہے تو خطے پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو دنیا کے امن کے لیے بھی خطرہ ہوں گے۔ اس کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو افغان مہاجرین کی حالت زار مزید خراب ہو جائے گی جو پاکستان میں مقیم ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے مابین کافی عرصہ سے اختلافات اور شدید ناراضگی چلتی رہی۔ لیکن اب اطلاعات ہیں کہ وہ پھر سے متحد ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مشترکہ پلیٹ فارم پر کچھ نئے لوگوں کی تعیناتیاں بھی کی ہیں جس سے خطے میں خطرے کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
سویڈن میں مقیم عبدالسید نے پاکستان اور افغانستان کی شدت پسند تنظیموں پر جامع تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ایک غیر ملکی چینل کو بتایا کہ ٹی ٹی پی اور احرار کے مابین مصالحت ایک اہم پیش رفت ہے جس سے پاکستا ن کو غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ان عسکریت پسند تنظیموں کا ہدف پاکستانی فورسز ہیں۔ اسی تناظر میں وہ پاکستانی حدود کے اندر کئی حملے بھی کر چکے ہیں۔ آئندہ بھی اُنکے ارادے ٹھیک نہیں لگتے۔ اگرچہ ہماری آئی ایس آئی ان سے چوکس ہے۔ لیکن پھر بھی وہ کہیں نہ کہیں حملوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یقینی طور پر ایسی صورت حال پاکستان کی معیشت اور امن و امان کیلئے بہت الارمنگ ہے۔ اس سے ملک کی مجموعی صورت حال پر بھی بہت بُرے اثرات پڑ رہے ہیں۔شکوے، شکایتیں اور غلط فہمیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین مسائل و معاملات کی گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی۔ ٹی ٹی پی کے سہولت کار کافی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے اُنکے خاص ٹھکانے ہیں۔ جہاں سے وہ ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کرتے ہیںؒ یہ اتنا مضبوط نیٹ ورک ہے کہ اس کو ختم کرنا اس لیے بھی مشکل ہو رہا ہے کہ وہ گروپوں کی صورت میں الگ الگ اپنا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہیں رہتے۔ اسی لیے کسی ایک گروپ کے بندے پکڑے جاتے ہیں تو دوران حراست وہ دوسرے گروپوں کی نشاندہی نہیں کرتے کیونکہ انہیں ان کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا۔ ہر گروپ کا براہ راست رابطہ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی قیادت سے ہوتا ہے۔ وہیں سے انہیں ہدایات ملتی ہیں۔ یوں پاکستان میں موجود ٹی ٹی پی کے سہولت کار دہشت گردی میں انہیں ہر طرح کی سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔ تاہم تمام تر مشکلات کے باوجود ہماری ایجنسیاں انکی سرکوبی کیلئے ہمہ وقت متحرک اور سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔
دہشت گردوں کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں پر پاکستانی ایئر فورس کی بمباری کے بعد تحریک طالبان پاکستا ن کی طرف سے بڑی خاموشی ہے۔ شاید وہ اس فضائی حملے کا جواب دینے کی سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن پاکستانی ایجنسیز اور دیگر فورسز بھی اس قدر متحرک ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کی کارروائی کا موقع نہیں مل رہا۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان سے کیا مسئلہ ہے؟ اس تناظر میں کئی پاکستانی وفود نے متعدد بار کابل میں مقیم ٹی ٹی پی کی قیادت سے بات چیت کی جس میں افغان طالبان بھی شریک رہے لیکن مذاکرات میں فریقین کو کامیابی نہیں ہوئی۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کارروائیاں اب بہت بڑھ گئی ہیں۔ افغان حکومت پر مزید دبائو ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت سے باز آ جائے۔ افغان حکومت کو ایک بار پھر وارننگ دی جانی چاہیے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اُس کی سلامتی ہمیں ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ وطن عزیز پر کوئی آنچ آتی ہے یا اس کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے تو ہم ہر طرح کی کارروائی کریں گے۔ چاہے اس کارروائی کے لیے ہمیں افغانستان میں ہی کیوں نہ داخل ہونا پڑے۔ تحریک طالبان پاکستان اس وقت بھارت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے پاکستا ن کو ویسی ہی زبان میں جواب دینا چاہیے جس طرح کی زبان کی ٹی ٹی پی کو ضرورت ہے۔
سعید آسی بڑے باخبر اور بات کا کھوج لگانے والے صحافی ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی برطانوی اخبارگارڈین کی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’بھارتی ایجنسی را‘‘ نے 2020ء سے اب تک پاکستان میں 20افراد کو قتل کرایا ہے۔ اُس نے بیرون ملک اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ کینیڈا میں خالصتان کے شدید حامی سکھ رہنما کا قتل کرایا جبکہ امریکہ میں ابھی ایک سکھ رہنما قتل کر دئیے گئے۔ جن کے قتل کا الزام کینیڈا اور امریکی حکومتوں نے براہ راست مودی حکومت پر عائد کیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت بیرون ملک دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے جس پر دنیا اور اقوام متحدہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
٭…٭…٭

مزیدخبریں