خود احتسابی

ہمارے ایک فیس بْک فرینڈ ہیں جناب مجیب الرحمان۔ انکی وال پر ایک نہایت ہی عمدہ تحریر پڑھنے کو ملی سوچا اگر اپنے قارئین سے اسے شئیر نہ کیا تو علم کے حصول کی جستجو میں شامل دوستوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ پوسٹ کی عبارت کا مفہوم کچھ یوں ہے:
’’ ماہرین نفسیات کہتے ہیں!
1) اگر آپ کسی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا عوامی تقریب میں چائے پیتے ہوئے عام طور پر گھر پر چائے پینے کی نسبت زیادہ چینی اور دودھ ڈالتے ہیں تو آپ کی یہ صفت اس بات کی غماز ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کے جراثیم آپ میں بدرجہ اْتم موجود ہیں۔
2) اگر آپ پبلک واش روم میں گھر کی نسبت زیادہ ٹشو پیپر استعمال کرتے ہیں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے اندر ایک ایسا انسان بیٹھا ہے جسے جب بھی موقع ملے گا وہ قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کرے گا۔
3) اگر آپ سوشل تقریبات میں اپنی پلیٹ میں بھوک اور ضرورت سے زیادہ کھانا محض اس لیے ڈالتے ہیں کہ اس کا بل کسی دوسرے کی جیب سے جارہا ہے تو یہ آپکے فطرتاً لالچی ہونے کی دلیل ہے۔
4) اگر راہ چلتے وقت سڑک پر ملنے والی چیزوں کو آپ اپنی ملکیت سمجھتے ہیں تو آپ میں بلاشبہ قبضہ گروپ والی تمام صفات کے مالک ہونے کے سو فیصد امکانات پائے جاتے ہیں۔
5) اگر عام طور پر آپ قطار کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ  آپ کو کوئی طاقت ور عہدہ دیا جائے تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس سے آپ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔
6) اگر عام طور پر ٹریفک جام میں آپ قطار توڑ کر دوسری گاڑیوں کے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دلیل ہے کہ جب آپ کو کبھی سرکاری پیسے کا رکھوالا بنایا جائے تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ آپ اس میں غبن کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ آپ کو قوانین و ضوابط پر عمل سے نفرت ہے۔
7) اگر ٹریفک ہدایات اور قوانین کو توڑ کر کوئی فخر محسوس کرتا ہے تو ایسا انسان اپنی ذاتی تسکین کیلئے کسی کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے-
8) اگر آپ اپنے گھر کے گندے پانی کا بہتر انتظام کرنے کی بجائے رخ دوسرے کے گھر کی طرف کر دیتے ہیں تو یقینا صحت مند معاشرے کی تکمیل میں آپ کبھی بھی مثبت کردار ادا نہیں کر سکتے۔
9) اگر آپ گھر اور آفس کی فالتو لائٹس بند کرنے کے عادی نہیں ہیں تو آپکی یہ عادت ظاہر کرتی ہے کہ موقع ملنے پر آپ ملکی اور قومی وسائل کو ضائع کرنے کا ارتکاب کریں گے۔
10) اگر آپ طالب علم ہیں اور امتحان کی تیاری صرف امتحان سر پر آنے پر کرتے ہیں تو اس سے عندیہ ملتا ہے کہ آپ کاہل اور کام چور ہیں۔
11) اگر آپ کا زیادہ وقت کہانیاں پڑھنے، فلمیں اور ڈرامے دیکھنے میں گزرتا ہے تو آپ خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے، بیعمل انسان ہیں جو اپنے علاوہ لواحقین اور دوست احباب کا مستقبل بھی برباد کر رہے ہیں۔
یہاں پر صاحب تحریر اپنے conclusive ریمارکس میں لکھتے ہیں کہ اگر آپ حیران ہیں کہ اس پوسٹ کو زیر بحث لانے کی کیا ضرورت ہے تو بڑی حد تک بددیانتی کا عنصر آپ پر غالب ہے اور آپکا شمار بد دیانت لوگوں کی کٹیگری میں ہوتا ہے جہاں آپ اپنے فائدے کی غرض سے بڑی آسانی سے معاشرے میں خرابیاں پیدا کریں گے۔‘‘
صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے راقم کا ذاتی خیال ہے کہ صاحب تحریر نے عبارت میں جس جس جگہ پرسنل ریمارکس دیے ہیں وہ قطعاً انکی ذاتی سوچ اور فعل ہے جس سے راقم اور ادارے کا کوئی تعلق نہیں اور انکے ان ریمارکس سے اگر کوئی قاری کسی قسم کا اپنی ذات کے حوالے سے ربط محسوس کرتا ہے تو وہ بھی اسکی اپنی سوچ ہو سکتی ہے۔ البتہ ماہر نفسیات نے جن جن نقاط کی نشاندہی کی ہے اس میں کتنی صداقت ہے یہ ہم میں سے ہر ذی شعور اور رتی بھر بھی ظرف اور فکر کی سوچ رکھنے والوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ ہم انفرادی طور پر اپنی خود احتسابی کی طرف توجہ دیں اور جہاں بھی ہمیں موقع ملے ہم بذاتِ خود باکردار انسان بننے کی کوشش کریں۔ یاد رہے زندہ معاشروں میں کرپشن، بدعنوانی اور ایسی بے شمار برائیوں کے خاتمے کی شروعات خود سے ہوتی ہے اور اسکے برعکس جن معاشروں میں ایسی توقعات دوسروں سے وابستہ کی جاتی ہیں انکا حال بالکل ایسا ہوتا ہے جسکی عملی تصویر آجکل ہمارا معاشرہ دکھا رہا ہے۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرتا چلوں کہ پائیدار سدھار کیلئے ایمانداری اور اچھے رویوں کا پیمانہ اپنے لئے اور دوسروں کیلئے ایک جیسا اور یکساں ہونا چاہئے ورنہ عدم مساوات کے روئیے پھر وہاں لا کر کھڑا کرتے ہیں جہاں اس وقت ہم ہیں۔۔۔! .
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی وجہ تو ضرور ہے جو ان بیان کردہ تلخ حقائق کا موجب ہے۔ گہرائی میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت کریکٹر بلڈنگ کی بجائے امیج بلڈنگ پر اپنی ساری توانائیاں خرچ کر رہی ہے۔ اوپر سے وقت کا جبر دیکھیں کہ ہمارے معاشرے کا وہ اہل بصیرت اور اہل فکر طبقہ جسکی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ اس آگاہی مہم میں اپنا کردار ادا کرتا جہاں یہ بتایا جاتا کہ کریکٹر اور امیج دونوں مختلف چیزیں ہیں، اگر آپ مضبوط کریکٹر کے حامل ہیں تو بلاشبہ آپکا امیج آپکے قد سے بڑا نظر آئیگا لیکن  آپ صرف اپنا امیج بڑھانے پر اپنی ساری توانیاں خرچ کر رہے ہیں اور کریکٹر پر کوئی توجہ نہیں دے رہے تو پھر اسکی کوئی گارنٹی نہیں کہ سماج آپکو وہ عزت دے جو ایک باکردار انسان کا مقدر بنتی ہے۔ وہ بھی یہاں اپنی ذمہ داریوں سے غافل دکھائی دیتا ہے اور اس قحط الرجال میں برابر کا شریک دکھائی دیتا ہے لہٰذا آئیے خود پہل کریں، خود کو ان برائیوں سے پاک کرنے کی کوشش کریں اور سماج میں اپنا مقام بنائیں۔۔۔!! یاد رہے یہ زندگی عطیہ خداوندی کے ساتھ ساتھ قوم کی بھی امانت ہے۔ اس میں خیانت ہرگز نہ کریں ورنہ روز محشر جواب تو ہر کسی کو دینا ہی ہو گا۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن