غزہ میں جنگ بندی کے مثبت اشارے

عرب میڈیا  کے مطابق غزہ میں جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے مصر‘ قطر اور امریکہ کی ثالثی میں مذاکرات کیلئے مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور تمام فریقین کا مجوزہ معاہدے کے نکات پر اتفاق ہو گیا ہے اور معاہدے کے حتمی نکات پر آئندہ دو روز تک دوبارہ بات ہوگی جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کی رکنیت کی درخواست پر آج غور ہوگا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو 2012ء سے اقوام متحدہ میں غیررکن مبصر کا درجہ تو حاصل ہے تاہم اسے ابھی تک رکنیت نہیں دی گئی جبکہ اقوام متحدہ کے 193 میں سے 140 رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کر کے ہیں۔ 
انسانیت کی اس سے زیادہ بے توقیری اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ غزہ میں گزشتہ 186 روز سے اسرائیل نے حشر اٹھایا ہوا ہے اور فلسطینیوں کو عملاً گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ اب تک 34 ہزار فلسطینی بشمول خواتین اور بچے بے دردی کے ساتھ وحشیانہ انداز میں شہید کئے جا چکے ہیں اور زخمی ہونیوالے ہزاروں فلسطینی بالخصوص معصوم بچے حالات کے رحم و کرم پر پڑے ہیں۔ غزہ کی پوری پٹی عملاً انسانوں کے قبرستان میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں کوئی عبادت گاہ‘ کوئی ہسپتال‘ کوئی مارکیٹ‘ کوئی تعلیمی ادارہ اور کوئی آبادی اسرائیلی جنگی جہازوں کی بمباری سے نہیں بچ پائی حتیٰ کہ اسرائیل نے امدادی اداروں کے دفاتر کا بھی تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسرائیل کے ان انسانیت کش گھنائونے جرائم پر دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے مگر امریکہ‘ برطانیہ اور دوسری الحادی قوتوں کی سرپرستی و معاونت میں اسرائیل نے غزہ پٹی اور وہاں مقیم فلسطینیوں کو ادھیڑنے کا سلسلہ ہنوز جاری رکھا ہوا ہے اور کسی بھی احتجاج پر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل میں پیش ہونیوالی تین قراردادیں امریکہ نے ویٹو کیں جبکہ مسلم دنیا کی قیادتیں فلسطینیوں کی عملی امداد کے بجائے محض ٹسوے ہی بہاتی نظر آئیں۔ دو ہفتے قبل سلامتی کونسل نے جنگ بندی کیلئے پیش ہونیوالی چوتھی قرارداد امریکہ کی اجلاس میں عدم شمولیت کے باعث منظور کرلی اور یواین سیکرٹری جنرل نے فوری جنگ بندی کیلئے اسرائیل کو وارننگ بھی دے دی مگر وہ اپنی جارحیت سے پھر بھی باز نہیں آیا اور گزشتہ روز بھی اس نے نصیرات پر فضائی حملہ کرکے چھ فلسطینیوں کو شہید کیا۔ اس صورتحال میں اگر عرب میڈیا کے بقول جنگ بندی کیلئے مصر‘ قطر اور امریکہ کاثالثی کا کردار موثر ثابت ہوا ہے اور فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کیلئے بھی پیش رفت ہوئی ہے تو اسے فلسطینیوں کی غیبی امداد سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مسلم قیادتوں کو اب بہرصورت مصلحتوں اور مفادات کے لبادے سے باہر نکل کر مستقل جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ غزہ میں فلسطینیوں کا خونِ ناحق بہنے کا سلسلہ رک سکے۔

ای پیپر دی نیشن