پاکستان کے وفاقی وزیر قانون جناب بابر اعوان پاکستانی قانون کے نگہبان کی حیثیت سے قانون کی تمام تر ممکنہ ”تاریخی تاویلیں“ بریف کیس میں ٹھونسے شہر شہر گھومے اور یہ نتیجہ اخذ کرکے گھر لوٹے کہ ابھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمے ایک کام باقی ہے! پاکستان کی کل آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ابھی تک سڑکوں، کچے رستوں اور پگ ڈنڈیوں پر جوتے ”چٹخاتا“ پھر رہا ہے! اس ”سواری“ کا یہ ”مجرمانہ استعمال“ اور اس ”سواری“ کے ساتھ یہ ”بہیمانہ سلوک“ اس امر کی غمازی کر رہا ہے تو یہ ”قوم“ سدھرنے کی نہیں اور وقت آ چکا ہے کہ روٹی، کپڑے اور مکان کے بعد سے پیروں کے جوتوں سے بھی محروم کر دیا جائے! کیونکہ یہ ”کام“ مکمل کئے بغیر وہ ”انقلاب“ رونما نہ ہو پائے، جس کی ”تقریب پذیرائی“ انہی کی صدارت میں منعقد کئے جانے کی آس نہیں قریہ بہ قریہ کو بہ کو کھینچے لئے پھر رہی ہے۔! لہٰذا انہوں نے ”جوتوں کی سیاست“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، سب سے پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے جوتے اتروانے کا ”پروگرام“ عام کر دیا اور عوام کے اتباع کیلئے پارٹی کارکنوں پر ”قائدانہ کردار“ ادا کرنے کی ذمہ داری بھی لاد دی!
پاکستان میں منصوبہ بندی کے باب میں حکمران طبقات کی تاریخی نااہلی کے نتیجے میں سیلابی پانی کی ”تاریخی تباہ کاری“ پر ماتم کناں اہل پاکستان کیلئے ”بیچ منجدھار“ پاکستان کے وزیر قانون، ”پارٹی کارکنوں“ پر قانون ہاتھ میں لے لینے کیلئے ضرور دکھائی دیئے تو ہمیں محسوس ہوا کہ وزیر قانون کے نزدیک ”قانون“ پارٹی کیلئے ”پاﺅں کی جوتی“ کے سوا کچھ اور نہیں! اور یہ ”جوتی“ بھی صرف مریضوں کے سر پر برسانے کیلئے بنوائی اور گنٹھوائی گئی تھی!
ہمیں یاد آیا کہ ایک زمانے میں یار لوگ قانون ہاتھ میں لینے سے گھبراتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قانون بہت ”بھاری“ ہوتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قانون کو ”پاﺅں کی جوتی“ سمجھنے والے جوتیوں کے اس جوڑے کو ریت کی ”بوریوں کے جوڑے“ کی طرح پیروں میں جھولنے کا سامان کر رہے ہیں! مگر ہمارے جیالے وفاقی وزیر قانون نے قانون کی تمام تر تاریخی تاویلیں بریف کیس میں بھریں! بریف کیس اٹھایا اور ہیلی کاپٹر میں جا بیٹھے کہ یہ ”اوزان“ صرف سامان بردار ہیلی کاپٹر ہی اٹھا سکتا تھا!
ہم ابھی تک نہیں جان پائے کہ ہمارے وفاقی وزیر قانون، اپنی عالم گیر سیاسی جماعت کے ملکوں ملکوں، شہروں، شہروں، برسر کار پارٹی کارکنوں پر، یہ جوتے کس کے سر پر برسانے کا بھوت سوار کر رہے ہیں! یہ ”کارکن“ تو انہیں کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر بادلوں کی طرح بہت تھک چکے ہیں!
ایک گاﺅں کے لوگ پیر سائیں کے پاس پہنچے اور بارش کیلئے دعا کی استدعا بہ صد گریہ و زاری عرض گزاری !
پیر سائیں نے دعا فرمائی! اور بارش کا سامان بھی
فرمایا! لوگ جاگ اٹھے تو دیکھا کہ راتوں رات ان کی گلیاں اور کھیت ”نم“ ہیں! عورتیں حیران تھیں کہ یہ کیسا بادل تھا کہ وت گلیوں گلاروں اور کھیتوں پر برسا مگر ان کے گھروں کے صحنوں اور چھتوں کو چھو کر بھی نہیں گزرا؟ پھر اسے پیر سائیں کی ”کرامت“ جان کر ”چپ“ ہو گئیں! مگر ”کرامت“ کچھ یوں بیان کی کہ آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی ”پیر سائیں“ کے در پر آ پہنچے اور بارش کی دعا کےلئے استدعا پیرا ہوے! پیر سائیں کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ان کے مرید خاص نے ان کے کان میں سرگوشی کی، ”پیر جی! بدل رات دے بڑے تھکے ہووئے نیں، دعا سوچ سمجھ کے کرنا!
تھکے ہوئے ”پارٹی کارکن“ جناب بابر اعوان کے حکم پر ”برس“ پڑیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے ہم ”قبل از وقت“ سمجھتے ہیں کیونکہ ابھی تک یہ ”وضاحت“ نہیں ہو سکی کہ اس ”پیغام“ کا ”حوالہ“ کیا ہے؟ اگر وہ ”سانحہ برمنگھم“ کا حوالہ دے رہے تھے! تو صدارتی ترجمان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ”وقوع پذیر“ ہی نہیں ہوا اور یہ سب کچھ ”میڈیا کی کارستانی“ ہے! جناب بابر اعوان کس سائے کے تعاقب میں اتنی دور نکل آئے کچھ پتہ نہیں چلتا، کچھ بھید نہیں کھلتا، کیا بات ہے بنیادی؟
راجا فاروق حیدر کی زبانی ایک اور کہانی سامنے آ رہی ہے! اور کوئی ”بزرگ“ بہت جلد پاکستان آنے اور اصل کہانی سنانے کا ادعا دے رہے ہیں! مگر ہم ”صدارتی ترجمان“ کی ”ثقاہت“ پر یہ داغ لگتا نہیں دیکھ سکے لہٰذا قلم اٹھا لیا اور اپنے آپ کو دلاسا دینے میں لگ گئے! کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بارش برسانے والے بادلوں کا ایک نظام منگل کے دن پاکستان چھوڑ رہا ہے اور بدھ کے دن بارش برسانے والے بادلوں کا ایک اور نظام پاکستان کی فضاﺅں میں پر پھیلانے والا ہے! جناب شہباز شریف فرما رہے کہ سیلابی پانی کی تباہ کاری کا حال الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں! ڈومور کا مطالبہ کرنے والی طاقتیں آگے بڑھیں! پاکستان میں امریکی سفیر کہہ رہی ہیں کہ امریکی عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے پاکستانی عوام کےلئے امداد دی جا رہی ہے!
پیر سائیں حضرت یوسف رضا گیلانی کا فرمان ہے کہ سیلابی پانی سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور اس نقصان کا اندازہ کرنے کیلئے عالمی بنک سے ماہرین بلائے جائیں گے!
جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے جنوبی پنجاب میں متاثرین کیلئے بھیجا جانے والا سامان جان بوجھ کر ان تک نہیں پہنچنے دیا جا رہا اور اسے راستے میں ”ہائی چیک“ کیا جا رہا ہے! جناب بابر اعوان کے ساتھی کارکن غریب عوام کا سرکچل رہے ہیں اور کسی کو ادھر متوجہ نہیں ہونے دے رہے! شاید ”لندن پلان“ کے بعد ”برمنگھم پلان“ روبہ عمل ہو چکا ہے! اور توقع ہے کہ پانی اترنے تک جوتا پل پڑے گا!
تربیلا اور منگلا کے کثیر المقاصد منصوبوں کے سپل ویز وقفے وقفے سے کھول اور بند کرکے سیلابی ریلوں کا ”آبی انتظام“ کر رہے ہیں! یہ ”واٹرمینجمنٹ“ چشمہ سے کوٹری بیراج تک آسمانی پانی کے اخراج کو ہموار رکھنے میں مدد دے رہا ہے مگر اس سارے عمل سے ناآشنا مگر معاملات الجھانے میں طاق لوگ اس ”کامیابی“ پر بھی سندھ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے کام سے لگے ہیں! گویا حکومت کے اندر اور باہر دونوں طرف سے پاکستانی عوام کے سر خطرے میں ہیں!
جناب بابر اعوان سے زیادہ اس امر سے کون واقف ہوگا؟ کہ ”سانحہ برمنگھم“ پارٹی کارکنوں کے اجتماع میں رونما ہوا! اور یہ ”سانحہ برمنگھم“ پاکستانیوں کیلئے ”جڑواںمیناروں کے انہدام“ سے زیادہ لرزہ خیز ہے! اگر کوئی سوچے! اگر کوئی سمجھے!
پاکستان میں منصوبہ بندی کے باب میں حکمران طبقات کی تاریخی نااہلی کے نتیجے میں سیلابی پانی کی ”تاریخی تباہ کاری“ پر ماتم کناں اہل پاکستان کیلئے ”بیچ منجدھار“ پاکستان کے وزیر قانون، ”پارٹی کارکنوں“ پر قانون ہاتھ میں لے لینے کیلئے ضرور دکھائی دیئے تو ہمیں محسوس ہوا کہ وزیر قانون کے نزدیک ”قانون“ پارٹی کیلئے ”پاﺅں کی جوتی“ کے سوا کچھ اور نہیں! اور یہ ”جوتی“ بھی صرف مریضوں کے سر پر برسانے کیلئے بنوائی اور گنٹھوائی گئی تھی!
ہمیں یاد آیا کہ ایک زمانے میں یار لوگ قانون ہاتھ میں لینے سے گھبراتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قانون بہت ”بھاری“ ہوتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قانون کو ”پاﺅں کی جوتی“ سمجھنے والے جوتیوں کے اس جوڑے کو ریت کی ”بوریوں کے جوڑے“ کی طرح پیروں میں جھولنے کا سامان کر رہے ہیں! مگر ہمارے جیالے وفاقی وزیر قانون نے قانون کی تمام تر تاریخی تاویلیں بریف کیس میں بھریں! بریف کیس اٹھایا اور ہیلی کاپٹر میں جا بیٹھے کہ یہ ”اوزان“ صرف سامان بردار ہیلی کاپٹر ہی اٹھا سکتا تھا!
ہم ابھی تک نہیں جان پائے کہ ہمارے وفاقی وزیر قانون، اپنی عالم گیر سیاسی جماعت کے ملکوں ملکوں، شہروں، شہروں، برسر کار پارٹی کارکنوں پر، یہ جوتے کس کے سر پر برسانے کا بھوت سوار کر رہے ہیں! یہ ”کارکن“ تو انہیں کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر بادلوں کی طرح بہت تھک چکے ہیں!
ایک گاﺅں کے لوگ پیر سائیں کے پاس پہنچے اور بارش کیلئے دعا کی استدعا بہ صد گریہ و زاری عرض گزاری !
پیر سائیں نے دعا فرمائی! اور بارش کا سامان بھی
فرمایا! لوگ جاگ اٹھے تو دیکھا کہ راتوں رات ان کی گلیاں اور کھیت ”نم“ ہیں! عورتیں حیران تھیں کہ یہ کیسا بادل تھا کہ وت گلیوں گلاروں اور کھیتوں پر برسا مگر ان کے گھروں کے صحنوں اور چھتوں کو چھو کر بھی نہیں گزرا؟ پھر اسے پیر سائیں کی ”کرامت“ جان کر ”چپ“ ہو گئیں! مگر ”کرامت“ کچھ یوں بیان کی کہ آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی ”پیر سائیں“ کے در پر آ پہنچے اور بارش کی دعا کےلئے استدعا پیرا ہوے! پیر سائیں کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ان کے مرید خاص نے ان کے کان میں سرگوشی کی، ”پیر جی! بدل رات دے بڑے تھکے ہووئے نیں، دعا سوچ سمجھ کے کرنا!
تھکے ہوئے ”پارٹی کارکن“ جناب بابر اعوان کے حکم پر ”برس“ پڑیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے ہم ”قبل از وقت“ سمجھتے ہیں کیونکہ ابھی تک یہ ”وضاحت“ نہیں ہو سکی کہ اس ”پیغام“ کا ”حوالہ“ کیا ہے؟ اگر وہ ”سانحہ برمنگھم“ کا حوالہ دے رہے تھے! تو صدارتی ترجمان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ”وقوع پذیر“ ہی نہیں ہوا اور یہ سب کچھ ”میڈیا کی کارستانی“ ہے! جناب بابر اعوان کس سائے کے تعاقب میں اتنی دور نکل آئے کچھ پتہ نہیں چلتا، کچھ بھید نہیں کھلتا، کیا بات ہے بنیادی؟
راجا فاروق حیدر کی زبانی ایک اور کہانی سامنے آ رہی ہے! اور کوئی ”بزرگ“ بہت جلد پاکستان آنے اور اصل کہانی سنانے کا ادعا دے رہے ہیں! مگر ہم ”صدارتی ترجمان“ کی ”ثقاہت“ پر یہ داغ لگتا نہیں دیکھ سکے لہٰذا قلم اٹھا لیا اور اپنے آپ کو دلاسا دینے میں لگ گئے! کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بارش برسانے والے بادلوں کا ایک نظام منگل کے دن پاکستان چھوڑ رہا ہے اور بدھ کے دن بارش برسانے والے بادلوں کا ایک اور نظام پاکستان کی فضاﺅں میں پر پھیلانے والا ہے! جناب شہباز شریف فرما رہے کہ سیلابی پانی کی تباہ کاری کا حال الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں! ڈومور کا مطالبہ کرنے والی طاقتیں آگے بڑھیں! پاکستان میں امریکی سفیر کہہ رہی ہیں کہ امریکی عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے پاکستانی عوام کےلئے امداد دی جا رہی ہے!
پیر سائیں حضرت یوسف رضا گیلانی کا فرمان ہے کہ سیلابی پانی سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور اس نقصان کا اندازہ کرنے کیلئے عالمی بنک سے ماہرین بلائے جائیں گے!
جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے جنوبی پنجاب میں متاثرین کیلئے بھیجا جانے والا سامان جان بوجھ کر ان تک نہیں پہنچنے دیا جا رہا اور اسے راستے میں ”ہائی چیک“ کیا جا رہا ہے! جناب بابر اعوان کے ساتھی کارکن غریب عوام کا سرکچل رہے ہیں اور کسی کو ادھر متوجہ نہیں ہونے دے رہے! شاید ”لندن پلان“ کے بعد ”برمنگھم پلان“ روبہ عمل ہو چکا ہے! اور توقع ہے کہ پانی اترنے تک جوتا پل پڑے گا!
تربیلا اور منگلا کے کثیر المقاصد منصوبوں کے سپل ویز وقفے وقفے سے کھول اور بند کرکے سیلابی ریلوں کا ”آبی انتظام“ کر رہے ہیں! یہ ”واٹرمینجمنٹ“ چشمہ سے کوٹری بیراج تک آسمانی پانی کے اخراج کو ہموار رکھنے میں مدد دے رہا ہے مگر اس سارے عمل سے ناآشنا مگر معاملات الجھانے میں طاق لوگ اس ”کامیابی“ پر بھی سندھ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے کام سے لگے ہیں! گویا حکومت کے اندر اور باہر دونوں طرف سے پاکستانی عوام کے سر خطرے میں ہیں!
جناب بابر اعوان سے زیادہ اس امر سے کون واقف ہوگا؟ کہ ”سانحہ برمنگھم“ پارٹی کارکنوں کے اجتماع میں رونما ہوا! اور یہ ”سانحہ برمنگھم“ پاکستانیوں کیلئے ”جڑواںمیناروں کے انہدام“ سے زیادہ لرزہ خیز ہے! اگر کوئی سوچے! اگر کوئی سمجھے!