مےرے والد مخدوم سےّد علمدار گےلانی

آخری قسط
سید یوسف رضا گیلانی (وزیراعظم پاکستان)
محمد خان لغاری، والد سے اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ کےخلاف ریفرنس بنے گا جب والد اور لغاری صاحب ایبڈو کا شکار ہوگئے تو ایک دن وہ والد سے ملنے کیلئے ملتان آئے۔ والد حسب سابق اپنی چٹوں پر عوام کے کام کرا رہے تھے۔ لغاری صاحب حیران ہوئے اور کہا کہ مخدوم صاحب! آپکی چٹیں آج بھی چل رہی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے دوراقتدار میں کام کئے ہیں اور مجھے نااہل کردیا گیا ہے۔ پھر ازراہ مذاق کہا کہ آپ نے تو کوئی کام بھی نہیں کیا اور پھر بھی ایبڈو ہوگئے، آپ سے تو پھر میں ہی بہتر رہا۔
صدر ایوب خان سے والد کی پہلی ملاقات ایبڈو کے تحت نااہلی کے دوران ماموں حسن محمود کے ہاں رحیم یار خان میں شکار کے موقعہ پر ہوئی۔ صدر ایوب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ ہم سے ملاقات کیوں نہیں کرتے؟ والد نے جواب دیا کہ ہم مسترد شدہ لوگ ہیں، آپ نے ہمیں سیاست سے باہر کیا ہے، ہمیں آپ نے دنیا سے باہر کیوں نہیں کردیا۔ صدر ایوب خان یہ سن کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے کہ میں چرچل کا بڑا مداح ہوں اور بقول اسکے:
\\\"The grass grows on the battle field but on the scaffold, never.\\\"
ترجمہ: گھاس میدان جنگ میں تو اگ سکتی ہے لیکن پھانسی گھاٹ پر کبھی نہیں۔
صدر ایوب نے مزید کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ ہر آنےوالا ہر جانےوالے کو پھانسی پر لٹکا دے جس سے ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے۔
ایبڈو کی مدت ختم ہونے پر والد نے 1970 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے صادق حسین قریشی کے مقابلے میں مسلم لیگ (قیوم گروپ) کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا۔ چچا حامد رضا نے شجاع آباد سے رانا تاج احمد نون اور چچا فیض مصطفی نے ملتان شہر سے شیخ اکبر قریشی کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ یہ زمانہ پیپلز پارٹی کے عروج کا تھا جس کی تیز آندھی کے سامنے کئی برج الٹ گئے جن میں والد اور چچا حامد رضا بھی شامل تھے۔ چچا فیض مصطفی تقریباً دو سو ووٹوں کی برتری سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف دو روز قبل ہی اسی حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
میں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عید میلادالنبی کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرام اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہید پر حاضری دیتے دیکھا۔ وہ ہر جمعرات کو بڑی ہمشیرہ کے پاس جاتے اور رات کا کھانا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کھاتے، یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات اورمسائل پر گفتگو ہوتی ۔ یہ سلسلہ خاندان میں اتفاق قائم رکھنے کا موجب تھا۔
میرے آبائی گھر پاک دروازہ کے قریب ایک چھوٹی سی دکان ہے جس میں عرصہ دراز سے تھومی نہایت لذیذ سری پائے پکاتا ہے اور دور دراز سے لوگ اس کا پکا ہوا کھانا لینے آتے ہیں جو والد کو بھی بہت پسند تھا اور وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ کھانا کھلاتے تھے۔ والد کی وفات پر تھومی نے بطور نیاز کھانا غریبوں میں تقسیم کردیا۔
والد کے دوستوں میں جن سے انکی اکثر ملاقات رہتی تھی، ملک اللہ بخش ، ملک احمد بخش ، منظور احمد قریشی، ملک قادر بخش بنڈھل، خلیفہ عبدالغفار، حافظ اکرام الٰہی، شیخ خورشید احمد، دلاور حسین قریشی، میاں محمود حسین قریشی، ملک بشیر احمد، ذوالفقار علی گیلانی، ہاشم علی گیلانی، ملک غلام محبوب لابر، ملک حضور بخش کھوکھر، حکیم فدا حسین، ڈاکٹر محمد حسین ملک، خواجہ عبدالکریم، قاصف، مولوی منظور حسین احقر، مولوی محبوب احمد اویسی، پروفیسر عبدالقدوس اور روزنامہ نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر شیخ ریاض پرویز شامل تھے۔
والد کے قریبی دوستوں میں مخدوم راجن بخش گیلانی کے بیٹے پھوپھا سید عبداللہ شاہ بھی شامل تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت والد کے ساتھ گزرتا تھا۔ ایک مرتبہ پھوپھا نے لاہور سے ملتان ٹرین کے سفر کا اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ان دنوں مسافروں کا معمول ہوتا تھا کہ اپنے سوٹ کیس پر اپنا نام مع القاب و ڈگری لکھا کرتے تھے۔ پھوپھا کم تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنے سوٹ کیس پر تحریر کروا رکھا تھا: I.S.P.G. Multan
انکے کمپارٹمنٹ میں ایک انگریز افسر بھی سفر کر رہاتھا۔ اس نے پھوپھاسے دریافت کیا کہ آپکے سوٹ کیس پر کون سی ڈگری لکھی ہوئی ہے۔ پھوپھا بڑی معصومیت سے بولے کہ اس کا مطلب ہے Inside Pak Gae Multan۔ یہ ان کے گھر کا پتہ تھا۔
والد کو لاہور بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی لاہور جاتے تو داتا دربار حاضری ضرور دیتے تھے۔ کبھی کبھار دربار میاں میر پر بھی حاضری کےلئے جاتے تھے۔ کئی مرتبہ میں بھی انکے ہمراہ گیا۔ وہاں پر میری ممانی رضیہ حسن محمود کا مزار بھی ہے۔ ممانی رشتہ میں فاروق لغاری کی پھوپھی اور سابق وفاقی وزیر بیگم عفیفہ ممدوٹ کی ہمشیرہ تھیں۔ مجھے زمانہ طالب علمی ہی سے والد لاہور کے اپنے چیدہ احباب سے روشناس کرواتے رہے جن میں صاحبزادی محمودہ بیگم، ملک محمد اختر ، چوہدری یوسف علی اور سید شبیر شاہ (ایم این اے میجر (ر) تنویر حسین سید کے والد ) قابل ذکر ہیں۔والد ہمیشہ تین رمضان المبارک کواپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا دن ہے۔ اس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور ان کی خوب تواضع کرتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی 3 رمضان المبارک مورخہ 9 اگست 1978ءکو نشتر ہسپتال، ملتان میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
انکی اس دن سے عقیدت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں انکی برسی کا اہتمام تین رمضان المبارک ہی کو کرتا ہوں۔ میں نے جب پہلی مرتبہ ان کی برسی محدود جگہ اور ٹریفک کے مسئلہ کی بنا پر دربار کی بجائے اپنی رہائش گاہ ’گیلانی ہاﺅس‘ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت سجادہ نشین تایا مخدوم شوکت حسین نے برا منایا کہ یہ تبدیلی خاندانی روایات کے برعکس ہے۔ تاہم وقت نے ثابت کیا کہ میرا فیصلہ درست تھا۔ والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
(”چاہ یوسف سے صدا“ سے انتخاب)

ای پیپر دی نیشن