حیوانیت اور انسانیت

Aug 10, 2012

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

انسان اورحیوان میں بہت مماثلتیں ہیں۔ مثلاً سانس لینے کیلئے ہوا کی ضرورت، زندگی کی نشوونما کےلئے پانی اور خوراک کی طلب، دیکھنے کیلئے آنکھیں، سننے کیلئے کان، انسانوں کی طرح نظام انہضام چلنے کیلئے پاﺅں، مذکر اور مو¿نث بچوں کی پیداوار، انکی خوراک کےلئے جسمانی دودھ کی موجودگی اور انکی حفاظت کی فکر وغیرہ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطاءکرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔ اس عقل کے باوجود اگر انسان کا دل پتھر بن جائے اور ضمیر مردہ ہو جائے تو پھر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیںرہتا۔ اپنے سیاسی، عسکری اور معاشی مفادات کےلئے جب طاقتور قوتیں اپنے ہتھیاروں کے بل بوتے پر انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح تلف کر دیتی ہیں تو انسانیت حیوانیت کے بدترین روپ میں سامنے آتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ دوسری جنگ عظیم میں عیسائی ہٹلر نے کئی ملین یہودیوں کو گیس چیمبرز میں زندہ بند کرکے جلا دیا اور امریکہ نے جاپان کے 2 ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ہنستے بستے شہروں کو ایٹم بم مار کر راکھ کر دیا۔
آج سے تقریباً 10 سال قبل امریکہ اور اسکے اتحادی مسلمان دنیا کے گنجان آباد تاریخی شہر بغداد پر حملہ آور ہوئے۔ رات کی جگمگاتی روشنیوں میں آبادیوں، محلوں اور ہوائی اڈوں کو لیزر گائیڈڈ بموں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے انسانی اجسام کے پرخچے اڑتے دکھائے گئے لیکن سنگ دل اور مردہ ضمیر انسانیت یہ سب کچھ ٹی وی سکرینوں پر خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔ کسی نے احتجاج کیا نہ سلامتی کونسل میں کوئی آواز اٹھائی۔ ابوغریب اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں قیدیوں کو ننگا کرکے ان پر کتے چھوڑے گئے اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ اس کی اگر خبر لیک ہوئی یا معمولی احتجاج سامنے آیا تو وہ بھی مغرب کی طرف سے لیکن پورا ایشیا، آسٹریلیا اور افریقی براعظموں سے اس بربریت کےخلاف کوئی آواز نہ اٹھی، نہ کسی نے سلامتی کونسل میں اس انسانی تضحیک کے خلاف کوئی احتجاج کیا۔ افغانستان میں تو انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل اس وقت انتہا پر نظر آئی جب انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ جارح افواج کے سپاہی مقامی لوگوں کے مردہ اجسام پر پیشاب کرتے دکھائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری اور پھر قتال اور اجتماعی قبریں ،فلسطین میں ہنستے مسلمانوں پر شطیلہ اور سابرا مہاجر کیمپوں میں مظالم کی داستانیں اور کشمیر میں بے گناہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف یہ سب انسانیت کے نام پر شرمناک دھبے ہیں۔
 Aldous Huxley نے 1932ءمیں "Brave new world" کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا جس میں اس چیز پر زور دیا گیا کہ جس طرح اخلاقی اقدار برباد کی جا رہی ہیں اور انسانیت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے چونکہ ہم Dehumanize ہو رہے ہیں۔ ناول نگار کے خیال میں مستقبل کی دنیا میں ماں اور باپ کے بغیر ٹیسٹ ٹیوب سے پیدا ہونیوالے بچے بھی عام ہو جائینگے جن کی اپنی کوئی شخصیت نہ ہو گی۔ حکومتیں انکو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے۔
 قارئین سوچیں کہ ٹیسٹ ٹیوب جنریشن تو دور کی بات ہے‘ ہماری موجودہ بین الاقوامی قیادت کے دوہرے معیار ہیں اور ہمارے دلوں سے انسانی جذبات بالکل مٹ گئے ہیں اور ہم واقعی Dehumanize ہو چکے ہیں۔ منافقت اس حد تک ہے کہ جانوروں سے پیار کرنیوالے انسانی جانوں کے ضیاع پر ٹس سے مس نہیں ہوتے‘ کتوں اور بلیوں سے پیار کا اظہار کرنیوالے زندہ معصوم انسانوں کا درندوں کی طرح ناشتہ کرتے ہیں اور وہ ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اس حیوانیت پر شرمندہ نہیں۔ معافی مانگنا تو دور کی بات ہے‘ ایک اہل دل مغربی دانشور نے اگلے دن لکھا کہ چند ماہ قبل وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے گیا تو وہاں Cambridge کی ایک گلی کے کنارے کچھ طلباءسیاہ لباس پہنے اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ یونیورسٹی کی سائنس لیبارٹریوں میں صحت مند بندروں کو مہلک بیماریوں کے جراثیم کا تجربہ کرکے ہلاک کر دینا ایک غیرانسانی فعل ہے، صحت مند جانوروں پر یہ ظلم بند ہونا چاہئے۔
قلم کار لکھتا ہے کہ اتفاقاً یہ 25 مئی 2012ءکا دن تھا، جس دن اقوام متحدہ کی رپورٹ کےمطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں مغربی طاقتوں کی مدد سے لڑی جانےوالی خانہ جنگی میں 108 لوگ لقمہ اجل بنے جن میں 34 عورتیں اور آپ یقین کریں 49 بچے بھی شامل تھے۔
ایک طرف جانوروں سے ہمددردیاں اور دوسری طرف انسانوں کےخلاف درندگی، انسان کس چیز پر یقین کرے۔ قلم کار لکھتا ہے کہ وہ بدنصیب مائیں جو ان معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد زندہ رہتی ہیں، کیا کبھی کسی نے انکے جذبات کا اندازہ بھی لگایا ہے۔ خون میں لت پت اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھا کر وہ کتنے کرب کا شکار ہوتی ہونگی۔ وہ شاید یہ نہیں چاہتیں کہ اپنے مردہ بچوں کے خون آلود کپڑوں کو دھو ڈالیں چونکہ اس طرح ان کپڑوں سے انکے لخت جگر کے جسم کی مہک کے غائب ہونے کا خطرہ ہے۔
قلم کار لکھتا ہے کہ جب دمشق میں ایک چار سالہ بچی رافان خلیفے کے والدین کی تلاش جاری تھی، عین اس وقت امریکہ کے شہر Taxas میں اس نے یہ پوسٹر درخت پر لٹکا دیکھا۔
Lost Cat, He is white and fluffy with brown and black tabby patches answer to the name sully, 2/ found please call.
”یعنی ایک سفید رنگ کی بھاری بھرکم بلی جو کچھ بھوری اور کچھ کالی بھی ہے ،گم ہوگئی ہے۔ جس کو ملے، اس نمبر پر اطلاع کریں۔ اس کو Sully کہہ کر پکاریں تو میوں کرتی ہے۔“
آپ خود اندازہ کرلیں کہ مسلمانوں کے دنیا میں خاندان اجڑ گئے، کنبے تباہ ہوگئے، بچے بچھڑ گئے، ماں باپ قتل ہوگئے، جائیدادیں ختم ہوگئیں، بوڑھے، مرد، حاملہ عورتیں اور معصوم بچوں کا تکہ بوٹی ہوگیا لیکن انسانیت خاموش ہے۔ ہم سب تماشائی ہیں۔ بغداد ہو یا دمشق، افغانستان ہو یا پاکستان، لیبیا ہو یا برما، مغرب تو کیا مسلمان دنیا کے ضمیر بھی مردہ اور دل پتھر ہوچکے ہیں۔
مغربی قلم کار آخر میں لکھتا ہے کہ صدر اوباما کی بیٹیوں نے ایک کتا بڑے پیار سے رکھا ہوا ہے اگر اس کتے کو ان لڑکیوں کی آنکھوں کے سامنے ذبح کر دیا جائے تو ان پر کیا گزرے گی۔ 20 جولائی کو امریکہ کے ایک سنیما گھر میں 12 بے گناہ امریکی ہلاک ہوئے تو امریکہ کا قومی پرچم سرنگوں ہوگیا اور امریکی صدر مقتولین کے گھر افسوس کیلئے پہنچ گیا لیکن شام اور برما کی قتل و غارت کی اس کو کوئی پرواہ نہیں۔ کیا مسلمانوں کا خون حیوانوں سے بھی سستا ہے؟
اللہ کرے مغربی دنیا کی قیادت دوہرے معیار ختم کر دے اور حیوانیت کی بجائے انسانیت کو ترجیح دے۔ عراق کی جنگ میں حصہ لینے والے ایک امریکی سپاہی Matt Southworth نے 4 اگست 2012ءکو اپنے خیالات کا اظہار ایک مضمون میں کیا ہے جس کا عنوان ہے "Human Dignity. A casualty of War" امریکی سپاہی کے مطابق امریکہ کی افغانستان میں دس سالوں سے لڑی جانیوالی جنگ بالکل بے سود ہے۔ میٹ جو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بطور تجزیہ نگار کام کرتا رہا ہے‘ لکھتا ہے کہ عراق اور افغانستان میں سینکڑوں ایسے لوگوں کو ہم نے قیدی بنایا جو بالکل بے گناہ تھے۔ ان میں سے بہت سارے اگر امریکی فوج کے حق میں نہیں تو مخالف بھی نہیں تھے۔ بہت سے بزرگ لوگوں کو جنہیں ہمیں انکل کہہ کر عزت دینا چاہیے تھی‘ ان کو ہم نے انسان بھی نہ سمجھا۔ اسی طرح ڈرون حملوں سے ہم نے تباہی مچائی اگر صدر بش نے 12 حملے کئے تو اوباما نے 329 حملے کئے اور 2004ءسے اب تک 2365 لوگ ہلاک ہو گئے جن میں بہت سارے بے گناہ لوگ اس لئے مارے گئے کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ پر تھے۔ امریکی فوجی دانشور جس نے خود عراق جنگ میں حصہ بھی لیا تھا‘ لکھتا ہے:
"We could not see these (civilian) prisoners as uncles, fathers and mentors. Rather we came up with a slew of derogatory names for Iraqis. We treated them as less than people. losing our humanity as we robbed them of theirs"
(ہم ان قیدیوں کو چچا‘ باپ‘ یا بزرگ سمجھنے کے بجائے ان کو برا بھلا کہتے تھے‘ ہم نے ان کو انسان نہ سمجھا اور اپنی انسانیت بالکل اسی طرح کھو دی جیسے انکی انسانیت پر ہم نے ڈاکہ ڈالا۔

مزیدخبریں