ارائیں خاندان کے نوجوان برکت علی نے جس نے گورنمنٹ کالج سے بی اے کیا تھا یہ دیکھا تو ان کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی اور انہوں نے ہندو تاجروں کا اس میدان میں مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں برکت ڈالی آزادی کے بعد اس خاندان کے نوجوانوں نے مکتبہ جدید، مکتبہ البیان اور مکتبہ میری لائبریری قائم کر لیے تھے اور ہندو ناشرین کتب لاہور چھوڑ کر گئے تو اس تجارتی اشاعتی میدان میں خلا پیدا نہ ہونے دیا۔
چودھری برکت علی 1920ءمیں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور کارپوریشن کے سکول میں حاصل کی اور اسلامیہ سکول بھائی گیٹ سے میٹرک کرنے کے بعد ایف اے فارمن کرسچین (ایف سی) کالج سے اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ اس دور میں ان کی تین دلچسپیاں نمایاں تھیں۔
اول : فٹ بال اور ہاکی کھیلنا اور اپنی ٹیموں کی انتظامی عہدیداری کرنا۔
دوم : موچی دروازہ اور دہلی دروازہ کے باہر سیاسی جلسوں میں مولانا ظفر علی خان اور عطااللہ شاہ بخاری کی تقریریں سننا اور اپنے سیاسی خیالات کو مسلم سیاست کے گرد متحرک رکھنا۔
سوم : کالج کے اردو اور فارسی کے اساتذہ سے ادبی معلومات حاصل کرنا اور انگریزی حکومت کے خلاف نفرت پالنا۔
چودھری برکت علی تعلیم ختم کرنے کے بعد مجلس احرار کے رکن بن گئے تھے۔ دراصل جلیانوالہ امرتسر میں جب عوام پر گولی چلائی گئی تو ان کے دل میں انگریزی سامراج کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ ادب کے شوق نے ادبی صحافت کی طرف بھی مائل کیا اور انہوں نے حکیم احمد شجاع کے مشورے سے رسالہ ”ادب لطیف“ جاری کیا جس کے پہلے مدیر طالب انصاری تھے، بعد میں میرزا ادیب ایڈیٹر بنے تو انہوں نے ادب لطیف کے سالناموں میں ”صحرا نورد کے خطوط“ کے عنوان سے ایک مقبول کتاب لکھی، اس رسالے کو بعد میں راجندر سنگھ بیدی، فکر تونسوی، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، قاسم محمود، ناصر زیدی اور اظہر جاوید کی ادارت نے چار چاند لگا دئیے۔ اب اس رسالے کو چودھری برکت علی کی صاحبزادہ صدیقہ بیگم چھاپتی ہیں۔ ”ادب لطیف“ اردو کا قدم ترین رسالہ شمار ہوتا ہے۔
چودھری برکت علی نے مسلمانوں کی علمی ترقی کے لیے مسلم تعلیمی مجلس قائم کی۔ لاہور میں پہلا مسلم ماڈل سکول ملتان روڈ پر کھولا، بعد میں لاہور کے مختلف گوشوں میں اس کی شاخیں قائم کیں۔ ان اداروں میں دینی اصولوں پر شخصیت سازی کی جاتی تھی۔ انہوں نے مکتبہ البیان کھولا اور رسالہ ”نصرت“ جاری کیا۔ چودھری برکت علی کے ایک صاحبزادے چودھری برکت علی مکتبہ اردو کے نگران ہیں دوسرے صاحبزادے خالد چودھری پنجاب بکڈپو کے ساتھ چودھری اکیڈمی کو بھی چلا رہے ہیں۔ چودھری برکت علی کا انتقال 8 اگست 1952ءکو ہو گیا تھا لیکن ان کے قائم کیے ہوئے ادارے قائم ہیں اور ادب کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ ان کی پچاسویں برسی پر ان کے لیے دعائے فاتحہ پڑھیے کہ اللہ تعالیٰ اس نیک نام انسان کی مغفرت کرے۔