عمران اور قادری دہشتگردوں کی حمایت پر کمربستہ کیوں؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) یوم آزادی کو شاندار طریقے اور جوش و خروش سے بنانے کا اہتمام کر رہی ہے۔اس نے یہ جشن ایک ماہ پر پھیلا دیا ہے۔ رنگا رنگ تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے۔ 14 اگست کو یوم آزادی کا جشن جوبن پر ہو گا۔ کچھ حلقے قوم سے یہ خوشیاں چھین لینا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف نے عین اس روز لانگ مارچ‘ احتجاج‘ دھرنے اور مظاہرے کا اعلان کر رکھا ہے۔ طاہر القادری صاحب کے پیٹ میں انقلاب کے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ یہ لوگ یوم آزادی کے روز قوم کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے پر تلے ہیں۔ عمران خان کا مطالبہ ماورائے عقل اور فہم و فراست سے خالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف استعفیٰ دیں۔ اب اعلان کر دیا ہے کہ حکومت کے خاتمے تک اسلام آباد میں دھرنا دیا جائیگا۔ گویا اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا جائے گا۔ حکومت کے خاتمے کے اعلان تک اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھنے کے اعلان سے ان کے ذہن کا  فتور واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام آباد میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کا مطلب ہے کہ جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت معاملہ فہم و فراست سے حل کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف بار بار عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں لیکن خان صاحب ہٹ دھرمی سے ایک ہی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دیں۔ عوام کو مسلم لیگ کی قیادت پر اعتماد تھا کہ اسے بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔ آج معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے میں نواز شریف استعفیٰ کیوں دیں؟ عمران خان کو 4 حلقوں میں دھاندلی نظر آتی ہے تو الیکشن کمشن سے رابطہ کریں اگر واقعی دھاندلی ہوئی ہے تو ان حلقوں میں دوبارہ پولنگ ہو جائیگی۔ 4 حلقوں کو جواز بنا کر سرے سے حکومت کو چلتا کر دینے کے مطالبہ سے‘ مطالبہ کرنے والوں کی عقل اور دانش کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت خان کو سمجھانے اور جمہوریت کی ریل کو رواں دواں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم ملک کی سیاسی قیادت سے مشورے اور ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ آج ایک بار پھر پوری سیاسی قیادت جمہوریت کے استحکام اور سیاسی نظام کی مضبوطی کیلئے ایک پیچ ہے۔ سراج الحق‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ سید خورشید شاہ‘ محمود اچکزئی‘ حتیٰ آصف علی زرداری سمیت ہر سیاستدان عمران خان اور طاہر القادری کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ان کی انقلاب اور لانگ مارچ کی رٹ بدستور جاری ہے۔ سرد جنگ یا گرم جنگ یا سیاسی معاملات اور محاذ آرائی اختلافات ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے ہی کم اور ختم ہوتے ہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات قطعی نہیں کرینگے۔ اب بتائیں حکومت ان حالات میں کیا کرے؟ 14 اگست کو عمران ایک لاکھ لوگوں کو بھی اسلام آباد لے گئے تو دہشتگرد کسی بھی وقت اپنا مقصد پورا کر سکتے ہیں۔ ایک لاکھ افراد یا اس سے زیادہ کو حکومت کیسے سکیورٹی فراہم کر سکتی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار نواز شریف ہوں گے۔ اگر کسی نقصان کی صورت میں نواز شریف یا حکومت کو ذمہ دار قرار دینا ہے تو پھر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عمران خان یا انکے ساتھیوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے پائے۔ پھر لامحالہ عمران خان اور انکے ساتھیوں کی حکومت کو کسی بھی طرح حفاظت تو کرنی ہی ہے۔ میرے خیال میں ان کی بہترین حفاظت ان کو اپنے اپنے گھروں میں ہی رکھنا ہے۔ یہ لوگ اپنے اپنے شہروں میں یوم آزادی کی تقریبات کا اہتمام کریں اور قومی جشن میں شامل ہو جائیں۔ دوسری طرف مولانا طاہرالقادری انقلاب کا راگ الاپ رہے ہیں۔ انکے مطالبات دہشت گردوں جیسے اور سوچ بھی دہشت گردانہ ہے۔ دہشت گرد جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو مانتے ہی نہیں۔ طاہرالقادری کا موقف بھی یہی ہے۔ ہر کام دہشت گردی اور غنڈہ گردی کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔انکے کارکنوں کے جتھے گلیوں بازاروں میں ہتھیار بند گشت کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز حملے کرکے 100 پولیس والوں کو زخمی کر دیا۔ ایسے میں ان پر دہشت گردی کا مقدمہ درج نہیں ہو گا تو کیا حکومت انکے گلے میں ہار ڈال کے کندھے پر اٹھائے پھرے گی۔ایک طرف دہشت گردوں کیخلاف ضرب عضب اپریشن جاری ہے اور وطن کے بیٹے شہادتیں پا رہے ہیں دوسری طرف عمران اور طاہرالقادری غضبناک مظاہروں کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ایسے موقع پر کیا  یہ دہشت گردوں کی سپورٹ نہیں ہو گی؟

ای پیپر دی نیشن