موجودہ حالات اور عصری تقاضے

Aug 10, 2014

باقر بلال حسین

وطن عزیز پاکستان اس وقت ایک عجیب کشمکش کا شکار نظر آتا ہے۔ اس ملک کے مفلوج مختلف ادارے باہم دست و گریباں ہیں۔آج کل محاذ آرائی عروج پر ہے۔ کہیں سونامی، سونامی کے چرچے ہیں تو کہیں سونامی مارچ کو آزادی مارچ کا نام دیا جا رہا ہے تو کہیں انقلاب مارچ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف گزشتہ سال ہونیوالے عام انتخابات کے نتائج کو الیکشن کمشن اور عدلیہ کی ملی بھگت سے چرانے کا الزام رکھتی ہیں تو ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اس جمہوریت کو جعلی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ عمران خان 14 اگست کو آزادی مارچ کرتے ہوئے نیا پاکستان کا نعرہ بلند کئے ہوئے ہیں تو حکمران جماعت اس کو فساد کی سیاست قرار دیتے ہوئے اس کو جمہوریت کیخلاف سازش قرار دے رہی ہے اور الزام لگا رہی ہے کہ بیرونی قوتوں اور بیورو کریسی کے رحم و کرم پر عمران جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے احتجاجی سیاست کر رہے ہیں۔عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ اب پرانا ہو چکا ہے اور اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے انقلاب لانا چاہتے ہیں جو نظام بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کھڑا ہے اور اس نظام کی بنیادی فلاسفی دولت کی بنیاد پر سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ کی حکمرانی قائم رکھتے ہوئے اس کے مفادات کا تحفظ کا ہے۔ اس لئے اس پارٹی کی قیادت اسی طبقہ کے ہاتھ میں ہے جو مختلف ادوار میں مروجہ پارٹیوں کے ذریعے اس نظام کا حصہ رہ چکے ہیں اور جاگیر دارانہ یا سرمایہ دارانہ پس منظر رکھتے ہیں۔تحریک انصاف کے آزادی مارچ سے حکمران جماعت پر ایک لرزہ طاری ہے، حکمران جماعت حواس باختہ ہے، اس مارچ کو ہینڈل اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے اور دفعہ 542 کے تحت اسلام آباد کو فوج کے حوالہ کرنے کا اعلان کر چکی ہے لیکن تحریک انصاف کا اس آزادی مارچ سے حکومت پر پریشر بڑھانے کے علاوہ نتائج کے اعتبار سے کوئی واضح اور دو ٹوک لائحہ عمل نظر نہیں آ رہا۔ یقیناً یہ آزادی مارچ موجودہ سیاست میں ایک بھونچال تو پیدا کر سکتا ہے لیکن ایک عام آدمی کے اعتبار سے ملک کی قسمت بدلنے کا نعرہ بے بنیاد رہے گا۔ حکمران جماعت پولیس کے ذریعے مختلف شہروں سے قافلوں کو روکے گی تو تصادم کے نتیجہ میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن بالآخر اس سے تحریک انصاف کے چند تحفظات دور کر دیے جائینگے اور اسکے کچھ مفادات بڑھا دیے جائینگے لیکن عام آدمی کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئیگی۔ ڈاکٹر طاہر القادری بہت بڑے عالم اور سکالر ہیں، تقریر کا ہنر جانتے ہیں علمی اعتبار سے مطمئن کرنے کا ملکہ ان کے اندر موجود ہے ، کسی درجہ میں جماعت میں تنظیمی صلاحیت پیدا کر چکے ہیں لیکن وہ مروجہ فاسد نظام کی بساط ان بیساکھیوں پر کھڑے ہو کر لپیٹنا چاہتے ہیں جن بیساکھیوں کی بنیاد اس نظام کے ساتھ وابستہ ہے۔ موجودہ نظام کی حصہ دار قوتوں کے ساتھ مل کر اسی نظام کو بدلنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ نظاموں کی تبدیلی کی بنیادی فکر سے وہ دور نظر آتے ہیں۔ تشدد کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں،تشدد کے ذریعے نظام کو بدلنا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اس کا نتیجہ خونریزی اور انارکی کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔انقلاب ایک مکمل سائنس ہے۔ انقلاب کی اساس ہمیشہ کو ئی فلسفہ ہوا کرتا ہے۔ اسی فلسفہ کی اساس پر ایک نظریہ جنم لیتا ہے، اسی نظریہ و فکر پر تنظیم سازی کا عمل اپنے مراحل طے کرتا ہے، رجال کاران کے اندر ضبط، اطاعت اور نظام کو چلانے کی مہارتیں پیدا کی جاتی ہیں۔ تربیت کے ذریعے اجتماعی مفادات کیلئے ذاتی مفادات کی قربانی کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ تیاری مکمل ہونے کے بعد فاسد نظام کو توڑنے کا لائحہ عمل اور حکمت عملی ترتیب پاتی ہے۔ نبی اکرمؐ کا حجازی اور بین الاقوامی انقلاب، انقلاب چین اور انقلاب ایران اس کی واضح مثالیں ہیں۔ طاہر القادری کس فلسفہ پر انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ کیا نظام کو چلانے کی ان کی جماعت کی اندر سکلز ہیں؟ اگر یہ سب ہے تو کیا نظام کو اوور ٹیک کرنے کا لائحہ عمل اور حکمت عملی طے پا گئی ہے؟ تشدد کی حکمت عملی سے کیا نتائج حاصل ہو پائیں گے؟آج ملک میں جتنے نعرے نظر آتے ہیں یہ اس ملک کے نوجوانوں کے نظام کے خلاف ابھرنے والے ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہیں اور سادہ لوح عوام کا فکری استحصال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے کسی مثبت اور ترقی کے عمل کی توقع رکھنا خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔

مزیدخبریں