نیویارک میں تعزیتی اجلاس۔۔۔

Aug 10, 2014

طیبہ ضیاءچیمہ

محترم مجید نظامی کی یاد میں نیویار ک میں ایک یادگار تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔مجیب الرحمان شامی جب ہمارے گھر تشریف لائے تو انہوں نے کہا مجید نظامی صاحب کے گولڈن جوبلی ایڈیٹر شپ کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب کی گونج پاکستان میں بھی سنائی گئی جو کہ ایک قابل فخر اقدام تھا ۔تعزیتی اجلاس کی تقریب بھی مسلم لیگ نون کے نائب صدر اور سماجی شخصیت میاں فیاض کے پارٹی ہال میں منعقد کی گئی ۔نیویار ک میں مقیم پاکستانی امریکی میڈیا کے اہم نمائندوں ، حکومتی پارٹی کے نمائندوں،قونصل جنرل نیویارک راجہ علی اعجاز،لاہور سے تشریف لائے ہوئے اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب اور کمیونٹی کے افراد کی شرکت نے تعزیتی اجلاس کو یاد گار بنا دیا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی جس چیز نے ہمیں بے حد متاثر کیا وہ نظامی صاحب کا قد آور پوسٹر تھا۔ سیاسی قائدین کے پوسٹر تو ہر سیاسی پارٹی کی بغل میں موجود ہوتے ہیں مگر مجید نظامی صاحب کی قدر آور تصویر مسلم لیگوں کے پاس پائی گئی۔قدر آور شخصیت کے تعزیتی اجلاس کے لئے ہم نے بنفس نفیس تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور دیگر سماجی و سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو پیغامات بھیجے مگر کسی سیاسی و سماجی پارٹی نے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت نہیں دیا۔تحریک انصاف کا اول تو نیویارک میں کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا اور جو چند ایک لوگ ہیں وہ بھی موسمی بیٹروں کی مانند عمران خان کی امریکہ آمد پر ٹر ٹرانے لگتے ہیں۔عمران خان کی نظامی صاحب کے ساتھ عقیدت کے ہم ذاتی طور پر گواہ ہیں اور ہم نے ذاتی طور پر عمران خان سے نظامی صاحب کی تعزیت کی مگر ان کے کسی نمائندہ نے تعزیتی اجلاس میں شرکت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ”مرد حُر“ کے لوگ بھی تشریف نہیں لائے یا شاید انہیں نظامی صاحب کا جملہ کہ ” میں نے جیل کاٹنے والے کو مرد حر کہا تھا جیب کاٹنے والے کو نہیں“ ناگوار گزرا حالانکہ نظامی صاحب نے نیویارک کے پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں یہ بات ویڈیو لنک پر کہی تھی اور تالیاں بجانے والوں میں پیپلز پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے۔تحریک انصاف کے ایک صاحب نے ناگواری سے کہا’یہ اجلاس ”مسلم لیگ ہاﺅس“ میں ہو رہا ہے ‘ ہم نے خوشگواری سے کہا ’آپ چاہیں تو ”پی ٹی آئی ہاﺅس“ میں رکھ لیں‘۔ جب تم سب نے پردیس میں بھی الگ الگ ہاﺅس بنا رکھے ہیں تو پاکستان کو” نیا گھر“ بنانے کا تصور کیسے کر سکتے ہو!مسلم لیگوں کو ایک پلیٹ فارم اور پاکستانیوں کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے کی جدوجہد کا غازی بستر پر شہید ہو گیا اورایک زمانہ اس کی جدائی پر افسردہ ہے مگر تم لوگ جب اس دنیا سے جاﺅ گے تو تمہارے لئے رونے والے صرف تمہارے گھر کے لوگ ہوں گے ۔ مسلم لیگ نون امریکہ کے صدر روحیل ڈار نے کہا کہ محترم مجید نظامی کا تعلق ”پاکستان مسلم لیگ“سے ہے ، نواز شریف کی مسلم لیگ سے نہیں، اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نظامی صاحب میاں نواز شریف سے سیاسی اختلافات رکھتے تھے اس کے باوجود میاں صاحب نظامی صاحب کو باپ کا مقام دیتے تھے کہ نظامی صاحب کی صورت میں محسنان پاکستان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔نظامی صاحب کا انتقال پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے ہم سب کمزور ہیں البتہ نظامی صاحب کا خلاءکبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ امریکہ سے پاکستانی میڈیا ایجنسی APP کے نمائندہ اور اخبار دی نیشن کے نمائندہ سینئر صحافی چودھری افتخار علی نے محترم مجید نظامی کی شخصیت کے بارے میں کہا کہ ”میں مجید نظامی صاحب کو برسوں سے جانتا ہوں۔صحافت میں مجھ سے سینئر تھے مگر قریب سے جاننے کا موقع 2004 سے میسر آیا جب میں نے نوائے وقت گروپ کا اخبار دی نیشن کی نمائندگی کی ذمہ داری سنبھالی۔نظامی صاحب انتہائی مہربان اور شفیق انسان تھے۔میں نے ان کے ادارے کے ساتھ کام کو انجوائے کیا۔آپ touch-stone personality تھے۔ہمیشہ درست سمت رہنمائی فرماتے تھے۔ میں نے مرحوم سے بہت سیکھااور میں اس کا شکر گزار ہوں۔انتقال کی خبر سن کر ”شاک“ پہنچا ،ابھی اپریل میں ہی تو لاہور ملاقات ہوئی تھی ،بظاہر صحت مند دکھائی دیتے تھے البتہ انہیں شنوائی میں دشواری پیش آ رہی تھی ۔ ہم نے تحریری گفتگو کی۔نظامی صاحب کا پہلا سوال یہ تھا
 "Tell me what are the chances of India becoming a permanent member of the U.N. Security Council. India is already being rated as a super power, but if it joins the group of five veto-wielding powers, their status would be confirmed to the detriment of Pakistan's interests. Is that going to happen?"
( بھارت کے سکیورٹی کونسل میں مستقل رکنیت کا کیاامکان ہے )افتخار صاحب نے جواب میں نظامی صاحب کو لکھا کہ
Not in the immediate future. The Group of four -- India, Brazil, Germany and Japan -- who are campaigning for permanent seats do not have enough votes in the 193-member General Assembly. Twothirds vote is required -- around 135 votes. The group claims the support of about 80 to 90 countries, as they campaign for their candidacy. Pakistan devised a well-reasoned stand in 2005 to counter the campaign for more permanent seats. Pakistan's stand that there should be no more individual countries as permanent members and that the fundamental decision to expand the Security Council should be based on consensus, not by vote, is picking up support.
(اگر پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا رہے تو بھارت کی سکیورٹی کونسل میں مستقل رکنیت کا کوئی امکان نہیں)اس جواب سے نظامی صاحب کے چہرے پر ایک اطمینان دکھائی دیا ۔ سینئر صحافی افتخار صاحب نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میںبھارت کی مستقل رکنیت کے بارے میں فکر مند تھے۔ان کی نظریہ سے وابستگی بہت گہری تھی ،مرتے دم تک انہیںپاکستان کے مفاد اور کشمیر کی آزادی کا فکر لاحق تھا۔پاکستان سے تشریف لائے اخوت ادارہ کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب اور نیویارک کے قونصل جنرل راجہ علی اعجاز نے بھی نظامی صاحب کو ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ اور آپ کی شخصیت کو رول ماڈل قرار دیا۔مسعود حیدر ، محسن ظہیر، ارشد چودھری،محمد فرخ ، سلیم صدیقی کی اجلاس میں موجودگی اور جذبات تمام صحافتی برادری کی نمائندگی کر رہی تھی ۔نیویارک سے مردو و خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے مجید نظامی مرحوم کے ساتھ اپنی خاموش عقیدت اور محبت کا عملی مظاہرہ کیا ۔

مزیدخبریں