سانحہ قصور اور پولیس کلچر

مکرمی! قصور کے دیہات میں گزشتہ پانچ برسوںکے دوران بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانیوالے واقعات میں چار سو کے قریب نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میلنگ کے ذریعے بھتہ وصول کرنے نے جہاں پورے معاشرے کو چونکا دیا ہے وہاں پولیس کلچر کے منفی پہلوؤں کو ایک بار پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے شہر لاہور کے عقب میں معصوم بچے گزشتہ پانچ سالوں سے اخلاق باختہ درندوں کا نشانہ بنتے رہے مگر اتنے عرصہ سے جاری اس گھناؤنے فعل کی مقامی پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہوئی جو نہ صرف عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے ضامن اس ادارے کی اپنی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یقیناً کسی نذرانے کے عوض قانون کی آنکھیں بند ہونیکی عکاسی بھی کر رہا ہے۔ مقامی لوگوں کے الزام کے بعد کہ زیادہ تر پولیس افسر معاملہ کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، کرپشن، اقرباء پروری اور بااثر جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ فراہم کرنیوالے پولیس کلچر کے تبدیل ہونے کا دعویٰ ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ ملک میں امن و امان اور پولیس کو اپنی حدود کے اندر رکھنے کیلئے پولیس نظام کی اصلاح بیحد ضروری ہے۔ ورنہ مستقبل میں بھی قصور جیسے انسانی معاشرے کو لرزا دینے والے واقعات وقوع پزیر ہوتے رہیں گے۔ (رانا زاہد اقبال فیصل آباد)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...