لاہور/ گنڈا سنگھ والا (اشرف جاوید/ نیشن رپورٹ+ نمائندہ نوائے وقت+وقت نیوز+ نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) قصور میں جنسی سکینڈل میں گرفتار 7 ملزموں نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزموں نے بچوں سے زیادتی اور ویڈیوز بنانے کے علاوہ والدین کو بلیک میل کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ دی نیشن کے مطابق مزید 50 متاثرین نے شرمناک جرم میں ملوث افراد کیخلاف پولیس کو شکایات درج کرانے کی تیاری کر لی ہے۔ یہ 50 افراد آج گنڈا سنگھ والا پولیس کو شکایت درج کرائیں گے۔ گاﺅں حسین خان والا کے رہائشی محمد سلطان نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے کیس درج کرنے سے انکار کی صورت میں بھی ہم اس معاملے کو ریکارڈ پر لانے کیلئے پولیس کے سامنے اکٹھے ہونگے۔ متاثرہ بچوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیق فوج کو کرنا چاہئے۔ مقامی مسجد کے 60 سالہ بزرگ نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ سینکڑوں بچے متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرہ بچوں کی تعداد 300 سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہم 7 ماہ سے اس پر احتجاج کر رہے تھے مگر پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ انہوں نے کہا پولیس نے اس حوالے سے اعلان کرنے پر انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ حکومت کی جانب سے معاملے کو اراضی تنازعہ کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی جس پر ”دی نیشن“ کے نامہ نگاروں نے گاﺅں کے آئمہ مساجد سے رابطہ کیا۔ ایک دوسرے امام مسجد نے بھی کہا کہ اگر متاثرین کو پولیس کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے۔ گاﺅں کی تینوں مساجد کے آئمہ مساجد نے کہا کہ متاثرہ بچوں کی تعداد میڈیا رپورٹوں میں سامنے آنیوالی تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا متاثرین میں بچیاں بھی شامل ہیں تاہم گاﺅں والوں نے بچیوں کے کیس درج نہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا اس سکینڈل کے حوالے سے جمعہ کے بعد مساجد سے اعلان کئے گئے تھے جس میں متاثرہ بچوں کے لواحقین کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ کیسز سامنے لائیں۔ ایم پی اے شیخ وسیم اتوار کی رات پہلی مرتبہ گاﺅں پہنچے۔ اس موقع پر بعض اہل علاقہ نے مجرموں کو تحفظ دینے کی کوشش کرنے پر حکومت کیخلاف احتجاج بھی کیا۔ اس موقع پر مولانا خالد جاوید قصوری نے وزیر کی جانب سے معاملے کو اراضی کا رنگ دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موصوف وزیر نے اب تک گاﺅں کا دورہ نہیں کیا۔ گاﺅں کے ایک مکین چودھری فاروق نے کہا کہ گاﺅں کا تقریباً ہر خاندان اس سکینڈل سے متاثر ہوا ہے۔ بہت سے متاثرین اور ان کے لواحقین اب بھی سامنے آنے سے گریز کر رہے ہیں۔ دریں اثناءقصور زیادتی سکینڈل کے مرکزی ملزم حسیب عامر سمیت سات ملزموں نے اعتراف جرم کر لیا۔ ایس پی انوسٹی گیشن قصور ندیم عباس نے بتایا کہ ملزموں کا مزید جسمانی ریمانڈ حاصل کریں گے۔ ریمانڈ مکمل ہونے پر چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ملزم حسیب عامر نے بیان میں اعتراف کیا کہ بچوں سے زیادتی کی، ویڈیو کلپس بنائے اور والدین کو بلیک میل کر کے رقوم بھی حاصل کیں۔ ملزموں سے برآمد 30 کلپس میں سے 10 میں ملزموں کی شناخت ہوگئی۔ پولیس نے چھاپوں کے دوران ہفتے کی رات ایک اور ملزم خالد عثمان کو حراست میں لے لیا اور جسمانی ریمانڈ لے کر تفتیش شروع کردی۔ سکینڈل میں سات ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ ملزمان کو گزشتہ روز مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ ڈی پی او قصور رائے بابر سعیدکے مطابق کچھ ملزمان جن میں سلیم اختر‘ شیرازی‘ تنزیل الرحمن‘ عتیق الرحمن‘ وسیم عابد‘ علیم آصف‘ محمد یحییٰ اور وسیم سندھی نے مقامی عدالت سے عبوری ضمانتیں کروا رکھی ہیں جن کو منسوخ کروانے کےلئے پیروی کی جائیگی۔ پولیس نے یکم جولائی کو تین مقدمات جبکہ 4جولائی کو ایک‘ 9جولائی کو ایک اور 13جولائی کو دو مزید مقدمات ملزمان کیخلاف درج کئے۔ پولیس نے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا جس میں حسیب عامرکے قبضہ سے موبائل فون‘ میموری کارڈ‘ سی ڈی اور نقدی برآمد کرلی جبکہ نسیم شہزاد ‘بشارت چیور‘ فیضان مجید سے بھی ایک عدد موبائل فون معہ میموری کارڈ برآمد کئے۔ متا ثرین اور دیہا تیوں نے نو ائے وقت گر وپ کے چینل وقت نیوز، نیشن اور نوائے وقت کے حق میں نعرے با زی کی اور ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب کی کمیٹی نے بھی زیادتی کے واقعہ پر کام شروع کر دیا جس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی کے 7 مقدمات میں 14 افراد ملوث ہیں۔ کمیٹی کو پولیس نے بریفنگ میں بتایا کہ 7 افراد گرفتار، دو مفرور اور 5 عبوری ضمانت پر ہیں۔ حسین خان والا گاﺅں میں 12 ایکڑ سرکاری اراضی کی نیلامی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ ڈی پی او قصور رائے بابر سعید نے کہا ہے کہ چار اگست کو مظاہرین نے پولیس سے اسلحہ چھینا تھا۔ قانونی طور پر جتنی شکایات آئیں، فوری ایف آئی آر درج کی گئی۔ مقامی ایم پی اے نے قصور واقعہ پر کوئی سفارش نہیںکی۔ 7 مقدمات درج ہیں۔ موبائل فونز، ویڈیوز بطور ثبوت عدالت میں پیش کریں گے۔ حسین خانوالا کے جنسی سکینڈل کے متعلق حلقہ کے ایم پی اے احمد سعید خان نے میں ان پر لگائے گئے الزامات کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس واقعہ کا بے حد افسوس ہے چونکہ یہ میرا حلقہ اور یہ الزام بے بنیاد ہے کہ میں ملزمان کی پشت پناہی اور ساتھ دے رہا ہوں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے حکم پر جوڈیشل انکوائری میں ہر چیز اور سچ کھل کر سامنے آ جائے گا۔ مجھ پر ملزمان کی پشت پناہی اور ان کی حمایت ثابت ہو جائے تو میں اپنی نشست سے فوری استعفیٰ دے دوں گا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ جب تک وزیراعلیٰ پنجاب اور پولیس خود جائے وقوعہ حسین خانوالا میں نہیں آئیں گے، ان کا احتجاج جاری رہے گا جبکہ ڈی پی او قصور رائے بابر سعید نے کہاکہ جنسی سکینڈل کے 288کیس درج نہیں ہوئے بلکہ یکم جولائی سے انہیں متاثرین کی جانب سے ملنے والی درخواستوں پر کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے 7ملزمان کو گرفتار کر رکھا ہے۔دریں اثناءدی نیشن اور وقت ٹی وی نے قصور واقعہ میں ملوث سرغنہ گروہ کے زیر استعمال حویلی اور سی ڈی شاپ کی نشاندہی بھی کردی، محض دو سو روپے کے عوض بچوں کی بنائی جانے والی ویڈیوز زبردستی سیل کروائی جاتی رہیں۔ جس حویلی کی نشاندہی کی گئی وہاں ایک خاندان کے تقریباً 20 سے 25 افراد مقیم تھے جو تاحال مفرور ہیں۔ ذرائع کے مطابق جس ویڈیو سنٹر سے زیادتی کی ویڈیوز سیل کی جاتی تھیں اس عمارت کا مالک بھی اسی سرغنہ گروہ سے تعلق رکھتا تھا جس نے نوید نامی شخص کو یہ دکان کرائے پر دے رکھی تھی۔ مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ دو ہزار چھ سے شروع ہونے والے اس گھناﺅنے سلسلے کی مبینہ ویڈیوز کو اسی قائم کردہ ویڈیو سنٹر میں لاکر سی ڈیز بنائی جاتی تھیں۔
اعتراف جرم