آصفہ کی بلی، مشرف کے کتے

نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارتی ریاستی جبر سے متاثرہ زخمی کشمیریوں کا علاج کرانے کیلئے ہم تیار ہیں۔ اور ریاستی دہشتگردی کے شکار زخمیوں کو دنیا میں کسی بھی جگہ طبی سہولت فراہم کرانے کے لئے ہم ہر قسم کی مدد کرینگے۔ کیونکہ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کو بیدردی سے چھلنی کر دیا گیا اور بھارتی فوج ہسپتالوں اور ایمبولینس گاڑیوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ اور زخمیوں کو علاج کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اس فرمان کے مطابق کہ ملک کی بقا کفر سے ممکن ہے۔ ظلم سے نہیں اس پر یقین کی انتہا کرتے ہوئے نوجوان رسم شبیری ادا کرتے ہوئے اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر آزادی کا نذرانہ پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اور اسی لئے موجودہ حکمرانوں نے ظالموں اور ستم گروں کیساتھ تعلقات محدود اور دوستی کی راہیں مسترد کر دی ہیں کہ روز جزا اسکی باز پُرس ہو گی بقول سید مظفر علی شاہ …؎
نہاں جس دم عیاں ہو گا
خدایا کیا سماں ہو گا!
جلا برسات میں جو ہے
وہ میرا ہی مکاں ہو گا
فلم لرزاں نہیں یونہی
کوئی نوحہ کناں ہو گا!
کشمیریوں کو یقین ہے کہ وہ آزادی فلسطین کے متوالوں کی طرح تقلید مجاہد کرتے ہوئے نو دس سال کے بچے غلیل لیکر ٹینکوں کے آگے سینہ سپر ہو کر بھٹر جاتے ہیں کہ پاکستانی ان کیساتھ ہیں۔ اور آزادی کشمیر کی خاطر چھوٹے سے پاکستان نے منی سپر پاور بھارت کی للکار کا جواب دیتے ہوئے کافروں کو غزوہ بدر کی یاد تازہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کو در بدر کر دیا تھا۔ اور اپنے فوجیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی نہیں ہیچکچائے تھے1965ء کی جنگ کشمیریوں سے وفا اور دوستی کا سترہ روزہ ترانوں سے گونجتا ہوا ایک عہد تھا، جس میں سیالکوٹ سیکٹر میں فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کرتے ہوئے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر کشمیر کی شاہراہ آزادی کو محفوظ و معتبر کر دیا۔ اور پھر آزادی کشمیر کی گونج اقوام متحدہ میں جا پہنچی گو 23کو فائر بندی ہو گئی۔ بڑی طاقتوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔ اور سویت یونین کے حکمران کوسیجن نے حد درجہ کوشش کر کے بھارتی وزیر اعظم، لال بہادر شاستری کا اور ہمارے جنرل ایوب خان کو ماسکو آنکی دعوت دی۔ جہاں دونوں ملکوں کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا جس پربطور گواہ کو سیجن کے دستخط ہیں، یہ 10 جنوری کو لکھا گیا 23 کو فائر بندی ہوئی، اس معاہدے کی بھارت میں شدید مخالفت کی گئی، اسوقت ہمارے وزیر خارہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو تاشقند میں جنرل ایوب خان کے ساتھ گئے تھے، بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے ، غالباً یہ واحد مثال ہے کہ کسی شخص نے کسی کو ’’منہ بولا‘‘ باپ کہا ہو بھارت میں معاہدے کی مخالفت اس لئے کی گئی کہ اس میں یہ نہیں لکھا گیا تھا کہ کشمیرمیں گوریلا جنگ کشمیریوں نے شروع کی تھی، اسکو بند کرنے کا کہیں تذکرہ بھی نہیں تھا۔ لیکن واپس آکر اچانک بھٹو نے منہ بولے باپ کے خلاف تحریک شروع کردی کہ تاشقند کے معاہدے کا راز میرے پاس ہے۔ میری بلی تھیلے سے باہر آگئی تو پتہ چل جائیگا۔ میری بلاول بھٹو اور آصف زرداری سے گزارش ہے کہ بلی کو مرنے سے پہلے تھیلے سے باہر نکال کر وہ راز فاش کردیں یہ وہ امانت ہے جو اسکے وارثوں (پاکستانیوں) تک پہنچنی چاہئے۔ آصفہ نے بھی بلیاں رکھی ہوئی ہیں جبکہ انکی والدہ نے کتا رکھا ہوا تھا۔ مشرف کے کتے کا نام وسکی دوسرے کا پاشا جو چھوٹا چائینز کتا ہے۔ تیسرا جرمن شیفررڈ (چے) ہے، قوم پیپلز پارٹی اور مشرف سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ کونسا معاہدہ تھا اسکی کونسی شقیں تھیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہوگیا تھا، لہٰذا یہ راز اب فاش ہوجانا چاہئے۔ کشمیر کے درمیان دیوار بنادینے کا مجرم کس منہ سے مسئلہ کشمیر حل ہوجانیکی بات کرسکتا ہے… ؎
ہیں ہمیں ہمدردیاں مظلوم سے
اور ظالم کو سزا دیتے نہیں
مشرف نے ہمایوں گوہر کی وساطت سے عمران خان کو بھی کتے کا تحفہ دیا تھا، ریحام خان نے طلاق کی وجوہات بتاتے ہوئے بتایا تھا کہ عمران میں بہت سی عادات ایسی تھیں، جن پر مجھے شدید اعتراضات تھے،ان میں ایک ان کی کتوں سے حد درجہ بڑھی ہوئی محبت اور پیار تھا۔ عمران خان ایک نوالہ خود کھاتے ایک اپنے کتے کو کھلاتے۔ عمران خان اور طاہر القادری جو کرپشن کے خلاف دھرنے، جلوس اور مظاہرے کرتے رہتے ہیں، کاش وہ یہ دھرنے بڑی طاقتوں کے سفارت خانوں کے آگے کرتے، میری وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آزادی کشمیر کے حق میں مظاہرے اور تقریریں کریں تاکہ آزادی کشمیر کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جائے۔ اس سے پہلے بھارت داعش کو کشمیر میں داخل کردے۔

ای پیپر دی نیشن