آشتی…برداشت اور تصوف کا کردار

ہندوستان…قدیم ترین انسانی تہذیبوں کا مرکز اور اس سرزمین کی مٹی خدا پرستی اور مذہب کی کوکھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بدقسمتی یا مشیت ایزدی کے تابع یہ دھرتی شروع دن سے حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے۔ آریہ (بااختلافِ روایت)، ساکا، ستھین، کشان، تاتار، منگول، یونانی، تورانی، افغان، اُزبک، ترک، عرب اور ایرانی حتیٰ کہ تمام یورپی اقوام بھی اُن غیر ملکی حملہ آوورں کی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ہندوستان کا رُخ کیا۔ ان باہری گھس بیٹھیوں کے مقاصد تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ تقریباً ایک ہی تھے۔ یعنی لوٹ مار، حصول، عشرت ستانی، کشور کشائی یا سلطنت باغلہ اور افسوس در افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام حملہ آور یہاں سے لوٹ مار کرکے واپس نہیں گئے چند ایک یہیں آباد بھی ہورہے مگر پھر بھی انہوں نے خود کو ہمیشہ غیر ملکی ہی سمجھا اور اس سرزمین اور یہاں کے باشندوں کو کبھی اپنا نہ گردانا۔ ان تمام تاریخی تفصیلات کے جائزہ کو ہم اور کسی موقع کیلئے اٹھا رکھتے ہیں اور اب سیدھے موضوعِ کلام پر آتے ہیں۔ مختصراً بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ برصغیر ہندو پاک میں دین اسلام کی آمد اور پاکستان کے قیام کو بھی انہی حملہ آوروں میں سے چند ایک کیساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ سراسر لغو اور غلط بات ہے اور اسی قسم کے نظریات نے خصوصاً ہمارے پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت، تشدد اور دین و مسلک کے معاملے میں مار کاٹ کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔
معزز قارئین کرام! آج ہمارے وطن عزیز پیارے پاکستان کی سلامتی اور بقاء پر بن آئی ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک انہیں بھونڈے اور جھوٹے نظریات کی بیخ کنی کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چور، لٹیرا اور ڈاکو صرف چور‘ لٹیرا اور ڈاکو ہی ہوا کرتا ہے اس قسم کے لوگوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے جوڑنا بذات خود ایک بے وقوفی ہے۔ برصغیر کو لوٹنے والوں میں اگر چند ایک لوگوں کے نام مسلمانوں جیسے ہوں بھی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگ کوئی بڑے راسخ العقیدہ مسلمان تھے یا اُن کو پارسا سمجھا جائے یا یہ خیال کیا جائے کہ انکے دل میں دردِ دینِ خدا تھا۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں تھا اور نہ ہی ایسے خون ریزوں کو کسی دین و مذہب میں دلچسپی ہوا کرتی ہے۔اب ہم اس بات کا مختصر جائزہ لیں گے کہ اگر ان لوگوں کاکردار اشاعت دین میں منحصر ہے تو پھر ترویج دین کیسے ہوا۔ تو مختصرا عرض ہے کہ حضورؐ کے عہدِ مبارک ہی میں تواتر کے ساتھ روایات ملتی ہیں جن میں جابجا ذکر ہے کہ عہد ِ رسالتؐ ہی میں ہندوستان سے کئی پاک نفوس شمع و ہدایت کی جلا پاکر فیضِ نورِ حق حاصل کرنے بارگاہِ نبوت میں پہنچ گئے اور ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ حضورؐ کے حکم سے ارضِ ہند میں وارد ہوتے رہے اور اپنے حلم، شریف النفسی، طہارت باطنی اور مضبوط کردار کی طاقت سے مخلوقِ خدا کو راہِ خدا کی جانب راغب فرمایا کہ جو اصل و عین اسوۂ محمدؐ ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے صوبہ گجرات میں مراد آباد، رائے بریلی کے قریب یوپی میں رام پور شہر کے اندر‘ وادیٔ سون میں محاباں والا اور ضلع سرگودھا اگر شہر میانی میں ٹبہ صحاباں جیسے قبرستان میں صحابہ کرامؓ کی قبور کا ہونا اور ان مقامات کے سوا بھی ان گنت مقامات کی نشاندہی کی جاتی ہے جو مختلف صحابہؓ سے متعلق ہیں۔ جیسے لاہور میں تمام حضرت رقیہؓ بنت علی مرتضیٰؓ، حیدرآباد اور سندھ میں متعدد مقامات پر حضرت علی مرتضیٰؓ سے منسوب مقامات۔ حضرت ابوذرؓ کی زیارات وغیرہ تو گویا صحابہؓ کی یادگارات کا برصغیر میں موجود ہونا اور اس قدر کثرت سے ہونا بذاتِ خود ایک الگ موضوع ہے جس کا احاطہ ایک ضخیم کتاب ہی کم سے کم کرسکتی ہے۔ خیر۔ عہد ِ رسالتؐ و دورِ صحابہؓ کے ساتھ ہی متصل عہد میں فیضانِ اولیاء ؓ نے اپنا مقدس سایہ بلاد ہند پر کرلیا اور کوئی متعصب سے متعصب مورخ بھی ایسی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ صوفیاء اور اولیاء ؒ کے طائفہ میں سے کوئی ایک بھی تشدد پسند ہو بلکہ اولیاء اللہ کا اسلوب فروغ امن و آشتی، بلندیٔ کردار، خدمت ِ خلق (جو بلاتفریق رنگ و نسل و ملت و مذہب ہوا کرتی تھی) اور برداشت ہی تھا۔ابتداً سلسلۂ عالیہ قادریہ کے بزرگوں نے شمع دیں روشن فرماتے ہوئے حضورؐ کی سیرت و سنت کے عین مطابق دعوت ذوالعثیرہ کی طرز پر وسیع لنگر خانوں کا اہتمام خانقاہوں میں کیا۔ مسلم، کافر، مشرک کسی قسم کی کوئی تفریق نہ رکھی گئی اور انسانیت کا احترام کیا گیا۔ جس کی بدولت کروڑوں کی تعداد میں لوگ دین ِ حق کو پاگئے۔ بزرگانِ چشت نے حضورؐ کی سیرت پاک سے واقعہ استقبال مرید ومواخاتِ مدینہ ہی کی طرز پر ’’سماع‘‘ کا انعقاد فرمایا اور اس رنگ میں بندگانِ خدا کو راہِ خدا پر بلالیا۔ جس کی کامیابی کے شاندار نتائج سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ بعد ازاں بزرگانِ سہروردیہ و نقشبندیہ نے ان طریقۂ کاروں کو فروغ دینا ضروری نہ سمجھا مگر کبھی بھی انکار و مزحمت نہ فرمائی حتیٰ کہ ایک عہد آیا جب کچھ نام نہاد ملائوں نے مختلف بزرگوں کے پاس جاجا کر اُنہیں اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی کہ ’’اسلامی حُلیہ‘‘، ’’اسلامی لباس‘‘ اور ’’اسلامی شناختی علامات‘‘ کی اختراعات ایجاد کی جائیں اور جو جو ان کو اختیار نہ کرے اُن پر فتویٰ ِ کفر لگایا جائے مگر اولیاء اللہ نے کبھی بھی ایسی کسی تحریک کا ساتھ نہ دیا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ صوفیاء اور اولیاء کو اپنے عہد کی مسلم حکومتوں کی طرف سے بھی ستایا گیا مگر طاقت و قوت اور دُنوی اسباب رکھنے کے باوجود صوفیاء و اولیاء نے کبھی جنگ وجدل کا راستہ نہ اپنایا اور ہمیشہ معاشرے میں خیر بھلائی اور امن وآشتی ہی کا پیغام سنایا۔ پاکستانی معاشرہ صوفی پیغام کو سمجھے تصوف کے قریب آئے تاکہ حقائق دین تک رسائی حاصل کرکے اپنی دُنیا و آخرت سنواری جاسکے۔ یہی رشتہ ہے کہ جس پر چل کر نہ صرف اگلا جہاں سنورتا ہے بلکہ یہ دُنیا بھی جنت بنائی جاسکتی ہے۔ صوفیاء کا پیغام آج عام ہوتا ‘ آئے دن یہ جو ہم کوئی نہ کوئی انتہائی غمناک خبر سن لیتے ہیں انکی کبھی نوبت نہ آتی۔ یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ تمام دہشتگردانہ کارروائیوں کا تعلق اسلام دشمن اور پاکستان دشمن عناصر ہی سے ہوتا ہے مگر صوفیانہ تعلیمات دراصل جو اصل دین ہیں سے ناواقفیت کی بناء پر ہی ہمارے معاشرے میں کچھ نہ کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ان غیر اسلامی حرکتوں کو بھی قابلِ مذمت نہیں سمجھتے یا کسی حد تک ان کارروائیوں کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی اور حکومتی سطح پر ایسی خانقاہوں اور دینی رہنمائوں کی سرپرستی کی جانی چاہیے جہاں سے صوفیاء کا حقیقی پیغام دیا جاتا ہے پھر وہ دن دور نہیں جب وطنِ عزیز جنت نظیر بن جائیگا۔

شہزادہ علیم ----حرف ِ اولیٰ

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...