فہم و ادراک سے بالا۱۱ ستمبر کا واقعہ اقوام عالم کیلئے بالعموم اور اسلامی دنیا کیلئے بالخصوص وحشتوں اور ہولناکیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے تیور تب ہی بتا رہے تھے کہ ممکنہ ہدف کیا ہے۔ یہ واضح تھا کہ القائدہ واحد ہدف نہیں۔تاہم اگر پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے توماننا پڑے گا کہ ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود ایک طویل عرصہ تک یہاں یہ رائے غالب رہی کہ دہشت گردی کے نام پر شروع ہونے والی یہ پرائی جنگ ہمیں مہنگی پڑے گی۔ وقت نے ثابت کیا کہ اگرچہ بعض ابتدائی غلطیاں سر زد ہوئیں مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ضرورت بن چکی تھی اور ضرب اذب کے فیصلے کے بعد اب کوئی ابہام نہیں کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہماری سمت درست ہے اور ہم کسی اور کی نہیں صرف اپنی جنگ لڑ رہے ہیںجو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے قریب نظر آرہی ہے۔مگر جنگ کے منطقی انجام اور پائیدار امن کی بحالی کیلئے حکومت کو غیر معمولی سنجیدگی اور دانشمندی کا ثبوت دینا ہوگا۔اس حوالے سے کم از کم تین پہلو انتہائی اہم ہیں جو حکومت کی توجہ کے متقاضی ہیں۔پہلے نمبر پر یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ آپریشن ضرب اذب جن خطوط پر جاری ہے ان کے تسلسل میں تعطل یا رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ آپریشن ضرب اذب کی تا حال کامیابیوں کا کریڈٹ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔پاکستانی فوج کے اس سپہ سالار نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے رواں سال کے آغاز سے ہی واضح کر رکھا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے ۔اس طرح اگر حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے تو جنرل صاحب نومبر میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔آئندہ آرمی چیف کے تقرر کا انحصار حکومت کی صوابدید پر ہے۔ فی الحال یقین سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔یوں آپریشنل حکمت عملی کے تسلسل کی ضمانت کا غیر یقینی ہونا فطری امر ہے۔اور اگر کسی وجہ سے دہشت گرد پھر سر اٹھانے لگتے ہیں تو یہ نہ صرف عوام کا ناقابل تلافی نقصان ہے بلکہ قوم کی بد قسمتی کے مترادف ہوگا۔یہ کہنا کہ جنرل صاحب نے خود ریٹائرمنٹ کا اعلان کر رکھا ہے ایک عامیانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے سولجر جب ملکی دفاع کا بیڑا اٹھاتا ہے تو ذاتی مفاد پر ملکی سلامتی کو ترجیح دینے کا حلف اٹھاتا ہے۔ملک کو ضرورت ہو تو جان کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتا۔جنرل راحیل کا تعلق ملک کی آن پر جانیں نچھاور کرنے والے ان دو شہیدوں کے خاندان سے ہے جن کی عظیم قربانی پر قوم انہیں اور ان کے خاندان کو سلام پیش کرتی رہے گی۔ انہیں ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ جنرل راحیل کی رگوں میں وہی خون دوڑ رہا ہے جو میجر عزیز بھٹی شہید اور میجر شبیر شریف شہید کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ قوم ان کی قابل تقلید قربانی اور احسان کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔آج ملک میں جاری آپریشن ضرب اذب کے منطقی انجام تک قوم جنرل راحیل شریف کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔ مانتے ہیں انہیں منصب کی خواہش نہیں مگر قوم کو ان کی ضرورت ہے ۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ حکومت کو قوم کے جذبات کا علم نہیں۔اگر قوم کے اس نیک جذبے کا احترام کرتے ہوئے باوقار انداز میں جنرل راحیل شریف سے کام جاری رکھنے کی اپیل کی جاتی ہے تو یہ اقدام قوم کی نظر میں نہ صرف حکومت کی قدر و منزلت میں اضافے کا باعث ہو سکتا ہے بلکہ یہ قومی مفاد میں آپریشن کی حکمت عملی کے تسلسل کا ضامن بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔آپریشن کے منطقی انجام کیلئے حکومت کی توجہ کا متقاضی انتہائی اہم دوسرا پہلویہ ہے کہ ان مشکلات و شکایات کا سنجیدگی سے بر وقت حل نکالا جائے جن کی نشان دہی آپریشن فورسز دوران آپریشن کر چکی ہیں۔فوجی قیادت بیرونی فنڈنگ اور ٹریننگ کا انکشاف کر چکی ہے دہشت گردی کیلئے کرپشن کے پیسے کے استعمال کی نشان دہی بھی کی جا چکی ہے ۔ جب فورسز کو حکومت کی جانب سے مامور کر دیا جاتا ہے تو دہشت گرد یا سہولت کار کسی بھی طبقے یا جماعت سے تعلق رکھتا ہو انہیں ہاتھ ڈالنا آپریشنل فورسز کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ لا محالہ ان شکایات کا ازالہ حکومت کی ذمہ داری ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک لے جانا مقصود ہے تو آپریشنل فورسز کی شکایات کا ازالہ لازمی ہے۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ہر ملک اپنے ملک کے عوام کی زندگیاں محفوظ بنانے کی سعی میں لگا ہو ا ہے اسی طرح ہم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اپنے ہدف کو پہچانتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا ہمارے لئے مناسب ہے۔ ہم کسی بھی ملک میں دہشت گردی کے ہر واقعہ کی مذمت کرتے ہیںلیکن کشمیر کے مسئلہ کا حل تو اقوام متحدہ کی قراردادیں تجویز کر چکی ہیںاسے دہشگردی کے خلاف جنگ کے ساتھ کنفیوز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ہمیں ڈو مور کا درس دینے سے پہلے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام یقینی بنانے کیلئے مثبت کردار کی اہمیت کا ادراک کیا جائے ۔ یہ ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ اپنی افواج کی توجہ اپنے ایشوز پر مرکوز رکھنے کیلئے نہ صرف بیرونی بیان بازی کا ٹھوس اور بر وقت جواب دے بلکہ سفارتی محاذ پر بھی اپنا مضبوط کیس کمزور ہونے سے بچائے۔