لاہور(اپنے نامہ نگار سے) حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے زیراہتمام کشمیر کے حوالے سے سیمینار منعقد کیا گیا‘ 195 ویں سیمینار کا آغاز پروفیسر قاری فاروق انور کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے موضوع سیمینار ’’مسئلہ کشمیر اور ڈاکٹر مجید نظامی کی پیش بینی۔ پاکستان کی ذمہ داریاں‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ گجرات‘ سیالکوٹ وغیرہ سب کشمیر کا حصہ تھے اور لاہور میں بیٹھ کر کشمیر کا نظام چلایا جاتا تھا۔ 50 ہزار مربع میل سے زائد رقبہ پر مشتمل مقبوضہ کشمیر کا ہر لحاظ سے رشتہ پاکستان کے ساتھ بنتا ہے، جغرافیائی‘ سیاسی‘ زمینی لحاظ سے بھی اور تمدن کے لحاظ سے بھی۔قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘ ڈاکٹر مجید نظامی میڈیا سائنٹسٹ تھے۔ انہوں نے کشمیر پر واضح مؤقف اپنایا۔ سیمینار کی صدارت جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کی، مہمانان خصوصی میں نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چودھری‘ معروف ادیب‘ کالم نگار اور سابق ایم این اے بشریٰ رحمان اور مقررین میں میاں سیف الرحمان، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ایڈیٹر شاہد رشید شامل تھے۔ سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ہماری اپنی حکومت ہی اپنی قوم کا خیال نہیں کررہی تو بھارتی حکومت سے ہم کیا توقع رکھیں۔ ہماری کشمیر کمیٹی کی کوئی رپورٹ کبھی پبلک نہیں کی گئی۔ سب اپنی جیبیں بھرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔ جو بھارت سے دوستی کی باتیں کرتے ہیں پاگل ہیں، کشمیر صرف بزورِ شمشیر ہی ملے گا۔ شملہ معاہدہ کرکے ہم نے بڑی غلطی کی۔ ہم کشمیر کے مسئلے میں صرف ایک طریقے سے ہی جان ڈال سکتے ہیں اور وہ ہے جنگ۔ یہی مجید نظامی کا مؤقف تھا جس کی میں تائید کرتا ہوں۔ سابق ایم این اے بشریٰ رحمان نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی ایک شیکسپیئر کا کردار ہے یہ جہاں جاتا ہے وہاں اس جیسا بن جاتا ہے۔کشمیر کمیٹی کے ارکان کو پوری دنیا کے دورے کرنے چاہئیں۔ قومی اسمبلی میں کبھی بھی کشمیر کمیٹی کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ فضل الرحمان کبھی مقبوضہ کشمیر تو کیا آزاد کشمیر بھی نہیں گئے، کمیٹی کو اربوں روپے سالانہ دئیے جاتے ہیں اس سے کارکردگی رپورٹ تو مانگی جائے۔روزنامہ نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چودھری نے کہا کہ کشمیر کے لئے ہمیں چل کر نہیں دوڑ کر آنا چاہیے۔ جب قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں تو ان میں فکری مغالطے ہوتے ہیں۔ ’’کشمیر پاکستان ہے‘‘ ہمیں یہ نعرہ نہیں لگانا چاہئے کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ۔ کشمیر ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ہماری شہ رگ پر کسی نے قبضہ کررکھا ہے شہ رگ کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ مجید نظامی کا ویژن بالکل قائداعظمؒ کا ویژن تھا۔ صلاح الدین ایوبی کا ویژن تھا۔ جب تک ہم طاقتور نہیں ہونگے کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کا باب6، باب7 میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ امریکہ نے بھارت کے ذریعے ہم پر دبائو کی انتہا کردی ہے۔ سی پیک منصوبے سمیت دیگر منصوبوں کو روکا جارہا ہے۔ ہم مضبوط ہونگے تو کشمیر کو آزاد کراسکیں گے۔ سینئر تجزیہ کار‘ ایڈیٹر نظریہ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے کہا کہ مجید نظامی نے نوائے وقت گروپ میں کشمیر فنڈ قائم کیا۔ 12 مئی 1994ء میں مجید نظامی نے کہا تھا کہ بھارت ہمیں ریگستان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی فوج سے کہتا ہوں کہ وہ ہمیں کشمیر لے کر دے۔ مجید نظامی کہتے تھے کہ بھارت ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔ پرویزمشرف نے کہا تھا کہ میری کشمیر پالیسی بھی وہی ہے جو بھارت کی ہے، اس پر مجید نظامی نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پرہمیں ایٹم بم بھی چلانا پڑے تو چلانا چاہیے۔ مجید نظامی کشمیر کے معاملے پر بہت افسردہ تھے۔ آزادکشمیر میں زلزلے کے وقت مجید نظامی نے 50 لاکھ روپے سے سکول تعمیر کرایا، مجید نظامی نے کہا کہ جب تک کشمیریوں پر ظلم ختم نہیں ہوتا اس وقت تک بھارتی وزیراعظم پاکستان نہیں آسکتا۔ جب بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستان آئے تو مجید نظامی نے انکا بائیکاٹ کیا سینئر تجزیہ کار میاں سیف الرحمان نے کہا کہ اس طرح کے سیمینار حکومتی سطح پر بھی ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں صرف مذہبی جماعتیں کشمیر پر بات کرتی ہیں جبکہ نام نہاد سیکولرجماعتیں کشمیر کو نظرانداز کررہی ہیں ۔ میڈیا میں صرف مجید نظامی نے کشمیر کی بات کی کسی اور ادارے نے کشمیر کی بات نہیں کی۔ حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں منعقدہ سیمینار میں شرکاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی جن میں ہلال احمر کی ماہر نفسیات ڈاکٹر فوزیہ سعید‘ ڈاکٹر آمنہ قریشی‘ سنی علماء کونسل کے ضلعی صدر و دیگر شامل ہیں۔