پارٹی قائد کی کوچہ سیاست میں واپسی

نواز رضا
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ’’نااہل‘‘ قرا ر دئیے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ’’عوام کی عدالت‘‘ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تو ’’بے پناہ رسپانس ‘‘ ملنے پر سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی نواز شریف کو سیکیورٹی کے پیش نظر ’’موٹر وے‘‘ کے راستے لاہور جانے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے ’’جی ٹی روڈ ‘‘ سے لاہور جانے کا ’’سیاسی فیصلہ‘‘ کیا۔ میاں نواز شریف چھانگلہ گلی سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تو ان کا بھارہ کہو میں جس طرح شاندار طریقے سے عوام نے استقبال کیا اس نے میاں نواز شریف کو جی روڈ کے ذریعے کا لاہور جانے کی تر غیب دی میاں نواز شریف نے کم و بیش پورا ہفتہ تک پنجاب ہائوس میں ڈیرہ ڈالے رکھا پنجاب ہائوس جو طویل عرصہ تک سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے زیر استعمال تھا مسلم لیگ(ن) کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا میاں نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگی رہنمائوں کے اجلاس منعقد ہوتے رہے اس دوران میاں نواز شریف نے مسلسل تین روز تک صحافیوں سے گروپوں کی صورت میں ملاقاتیں کیں جن میں انہوں نے اقتدار سے ہٹائے جانے کی ’’سازش ‘‘ کا بین السطور تو ذکر کیا لیکن ابھی اس پر کھل کر کوئی بات نہیں کی۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اتوار کو ’’موٹر وے‘‘ کے ذریعے جانے کا فیصلہ کر رکھا تھا سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران انہیں جی روڈ کے راستے لاہور جانے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں یہ کہہ کر کہ ’’ ان کا تو اب بھی جی چاہتا ہے کہ جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جائوں‘‘ لیکن سیکیورٹی ایشوز کی وجہ سے انہیں موٹر وے کے ذریعے لاہو ر جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے’’عقاب صفت‘‘ رہنمائوں نے ان سے جی ٹی روڈ کے ذریعے ہی لاہور جانے کا فیصلہ کروا لیا ۔بعض حلقوں کی جانب سے میاں نواز شریف سے اس فیصلہ کو تبدیل کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا لیکن انہوں نے کوئی دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ عوام کے پاس جانے کے لئے کوئی بھی رسک لینے کے لئے تیار ہیں ۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے پچھلے ہفتے دو بار راولپنڈی میں اہم ’’شخصیت‘‘ سے ملاقات کی اس ملاقات کو سیاسی حلقوں میں غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے ۔ میں ذاتی طور میاں نواز شریف کو جانتا ہوں وہ ایک بہادر اور جرات مند سیاست دان ہیں جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو نتائج کی پروا کئے بغیر اس پر ڈٹ جاتے ہیں میاں نواز شریف کا قافلہ بدھ کی دوپہر پنجاب ہائوس سے تحریکوں کے مرکز ،کوچہ سیاست لاہور کے لئے روانہ ہو گیا ہے ان کا اسلام آباد ، راولپنڈی ،روات اور گوجرخان پہنچنے پر تاریخی استقبال دیکھنے میں آیا ہے۔ خیبر پختونخوا سے امیر مقام کی قیادت میں ایک بہت بڑا جلوس بھی نواز شریف کی ریلی کا حصہ بن گیا ہے اسلام آباد میں انجم عقیل، راولپنڈی میں سینیٹر چوہدری تنویر خان، میئر سردار نسیم خان، محمد حنیف عباسی، شکیل اعوان، ملک ابرار نے نواز شریف کا شاندار استقبال کیا جس کی سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ میاں نواز شریف کی گاڑی پر جگہ جگہ ’’گل پا شی‘‘ کی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن حلقوں کی جانب سے میاں نواز شریف کے تاریخی استقبال پر پریشانی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جی ٹی روڈ جو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے جہاں اس جماعت کے 15 انتخابی حلقے واقع ہیں جن میں پارٹی کو اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اپوزیشن نے میاں نواز شریف کی’’لاہور ریلی‘‘ کو رکوانے کے لئے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا تھا لیکن عدالت نے درخواست کو ہی ناقابل سماعت قرار دے دیا۔ اسی طرح شریف خاندان کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کی درخواست مسترد کر دی ہے شدید گرمی اور حبس کے باوجود لاکھوں لوگوں پر مشتمل میاں نواز شریف کا قافلہ سست روی سے لاہور کی طرف بڑھ رہا ہے جس رفتا ر سے لاہور کی طرف بڑھ رہا ہے اس اندازہ لگایا جارہا ہے یہ قافلہ آئندہ 72گھنٹے میں 280کلومیٹر کی مسافت طے کرے گا اس بات کا قوی امکان ہے نواز شریف کا قافلہ جمعہ کو لاہور میں داخلہ ہو گا۔ عام تاثر یہ ہے کہ میاں نواز شریف ’’لاہور ریلی‘‘ میں اقتدار سے نکالے جانے کے بارے میں بتائیں گے لیکن انہوں نے محتاط انداز میں خطاب کیا ہے اور اقتدار سے نکالے جانے کے بارے میں اشارۃً گفتگو کی ہے میاں نواز شریف نے لاہور روانگی سے قبل اس بات عندیہ دیا ہے شاہد خاقان عباسی ہی آئندہ مدت کے لئے وزیراعظم ہوں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو پنجاب کی ضرورت ہیں وہ رول ماڈل ہیں پنجاب کی شان اور پورے پاکستان کی آن ہیں اب یہ صورت حال بھی واضح ہو گئی ہے کہ میاں شہباز شریف این اے 120کا انتخاب نہیں لڑیں گے بیگم کلثوم نواز کے این اے 120سے انتخاب لڑے جانے کا امکان ہے ۔ ادھر اسلام آباد میں میاں نواز شریف کی موجودگی میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی سامنے آگیا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ہدایت کی ہے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے تحت مسلم لیگ (ن) اپنے نئے صدر کا انتخاب کر کے الیکشن کمشن کو آگاہ کرے پارٹی آئین کے تحت بھی یہ عہدہ ایک ہفتے سے زائد خالی نہیں رکھا جا سکتا ، سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور پارٹی کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق کے درمیان ملاقات میں طے پا گیا ہے میاں شہباز شریف کو قائم مقام صدر بنایاجائے گا جس کا نواز شریف کا قافلہ لاہور پہنچنے پر باضابطہ طور اعلان کر دیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس آئندہ ہفتے لاہور میں متوقع ہے جس میں میاں شہباز شریف کو قائم مقام صدر بنائے جانے کے فیصلے کی توثیق کی جائے گی اگر مسلم لیگی قیادت نے مناسب سمجھا تو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر میاں شہباز شریف کو مستقل صدر بھی منتخب کیا جا سکتا ہے اس دوران سردار مہتاب احمد خان کو مسلم لیگ (ن) کا سیکریٹری جنرل اور خواجہ سعد رفیق کواسسٹنٹ جنرل سیکریٹری بنائے کا امکان ہے۔ میاں محمدنواز شریف نے سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران تجویز پیش کی ہے کہ ’’پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک گرینڈ ڈائیلاگ ہونا چاہیے ایک نئے پولیٹیکل اور سوشل کنٹریکٹ کی ضرور ت ہے‘‘ انہوں یہ تجویز در اصل فوج کے آئینی کردار کے بارے میں دی ہے فوج کی مداخلت روکنے کے لئے اس کا آئینی کردار طے کرنے سے سیاسی نظام مستحکم ہو سکے گا ان کی اس تجویز کا سیاسی حلقوں کی طرف سے کس حد تک پذیرائی حاصل ہوتی ہے فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے آئین کے آرٹیکل 62/1ایف کو ختم کرنے کے لئے اپوزیشن سے مل کر ترمیم کی جائے گی اب دیکھنا یہ ہے وہ سیاسی جماعتیں جو شروع دن سے آئین کے آرٹیکل 62،63 کو ختم کرنے کی حامی رہی ہیں کس حد مسلم لیگ (ن) سے تعاون کرتی ہیں جب کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت خود مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’’میری نااہلی کا فیصلہ ہو چکا تھا بس نااہلی کا جواز تلاش کیا جا رہا تھا‘‘ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ ’’نظرثانی کی اپیل پر بحال ہوا تو وزیراعظم نہیں بنوں گا‘‘ شاید ان کا یہ پیغام ان قوتوں کے لئے تھا جو انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتیں تاہم انہوں نے کہا ہے ’’کروڑوں لوگوں نے ووٹ دے کر وزارت عظمیٰ پر فائز کیا لیکن 5ججوں نے نا اہل قرار دے دیا‘‘۔ انہوں نے جی ٹی روڈ پر لاہور جانے کے معترض سیاست دانوں کو جواب دیا ہے’’ گھر بھیجا ہے گھر جا رہا ہوں تو گھر جانا ’’پاور شو‘‘ نہیں ۔ ابھی کہیں نہیں جا رہا، ابھی تو میری سنچری مکمل ہونی ہے‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ’’ نیب میں بھی مرضی سے ٹرائل کے ذریعے سزا دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے 70سال میں کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ مٹھی بھر افراد یہ کھیل کھیلتے چلے آرہے ہیں مگر پھر بھی جی ٹی روڈ پر نواز شریف کے نکلنے سے ان کے سیاسی مخالفین کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن