ججز‘ جرنیلوں کو احتساب سے ماورا نہیں ہونا چاہئے: ارکان سینٹ‘ سمجھوتہ کیا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی: رضا ربانی

اسلام آباد (ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے خبردار کیا ہے کہ پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کے بلا تفریق احتساب کے معاملے پرکوئی سمجھوتہ کیا گیا تو اسے تاریخ میں سیاہ الفاظ میں تحریر کیا جائے گا، ملک کو بحران سے نکالنے، آئین کے تحفظ، جمہوریت اور اداروں کے استحکام کیلئے سینٹ کا رواں سیشن ملک و قوم کیلئے امید کی کرن ہے، آئین کے تحفظ کیلئے ٹھوس تجاویز دی جائیں۔ اس امر کا اظہار انہوں نے اجلاس کے دوران کیا۔ موجودہ حالات میں پارلیمنٹ نے بلاامتیاز احتساب کے معاملے پر سمجھوتہ کیا ہے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی، سینٹ موجودہ حالات میں اداروں کو مضبوط کرنے، قانون کی حکمرانی، آئین کے تحفظ کیلئے سپاٹ لائٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ مختلف جماعتوں کے ارکان نے کہا ہے کہ کرپشن کے مسئلے نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے، جب تک آف شور کمپنیاں رہیں گی تیسری دنیا کے ممالک ترقی نہیں کر سکتے، بے نامی دولت کا نظام تہہ در تہہ پھیلا ہوا ہے، وقت آگیا ہے کہ ہم کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں اور بلاامتیاز احتساب کیا جائے۔ سیاستدانوں اور ممبران پارلیمینٹ کو سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے پہلے فیز میں سیاستدانوں کو اپنے آپ کا احتساب کرنا ہو گا، جرنیلوں اور ججوں کو احتساب سے ماورا نہیں ہونا چاہئے، جب تک سب کا بلا تفریق احتساب نہیں ہو گا قوم کی توقعات پوری نہیں ہوں گی، جب بھی ہم احتساب کی بات کریں گے تو فیصلہ پاناما کی بجائے اقامہ پر نہ ہی آئے تو بہتر ہے ورنہ ریلیاں اتنی لمبی لمبی نکلیں گی فیصلہ کرپشن پر ہی آنا چاہیے، رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت، تاج حیدر نے کہا کہ ملک میں تصادم کی صورتحال ہے جس قسم کے نعرے اور الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ ہم کرپشن کی تعریف میں پھنسے ہوئے ہیں ملک میں حقائق کا سامنا کرنے کی روایت بڑھی ہے جب تک نظر ملا کر بات نہیں کریں گے مسئلہ حل نہیں ہوگا حکمران کی ذات شک و شبے سے پاک ہونی چاہئے اس سے کوئی بھی سوال کر سکتا ہے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ کیسے اعتبار کریں ایک ایسے ادارے کا جس کا کنٹرول حکومت کے پاس ہو جب احتساب کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے جس سے سیاسی انتقام لینا ہے وہ کرپٹ ہے جو نشانہ بنانا ہے اس پر ایک سادہ کاغذ پر درخواست دے کر کیس بنا دیں جب اپنے آپ پر بات آئے تو کہتے ہیں کہ انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب آپ کو عوامی عہدہ ملے اور آپ وقت سیر و تفریح پر وقت صرف کریں یہ بھی کرپشن ہے آج 7دہائیوں کے بعد بھی ہم اپنے لیے لوگوں کی نظروں میں اپنی ساکھ ڈھونڈتے ہیں سب سے بڑا کرپشن کا الزام سیاستدانوں پر لگ گیا ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ کرپشن کی تشریح ہر سیاسی جماعت اپنے مطابق کرتی ہے۔ سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد جتنی بھی اسمبلیاں توڑی گئیں ان پر کرپشن کا الزام لگا ایسا احتساب کا قانون آئے جس میں ہر شہری برابر ہو سیاسی کارکن کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ چیزیں اس طرف جار ہی ہیں کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے اور 10-15 سال کے لیے بنگلہ دیش ماڈل لایا جائے۔ نعمان وزیر نے کہا کہ تمام جماعتوں کی قیادت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن میرا لیڈر عمران خان ایسا شخص ہے جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے جو بھی لوگ ایوان میں بیٹھے ہیں ان میں سے 10فیصد ایسے ہیں اگر ان کو موقع ملے تو وہ بھی کرپشن کریں گے۔ طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کرپشن نے کینسر کی شکل میں پوری قوم کو پکڑا ہوا ہے کوئی اخلاقی، کوئی مالی اور کوئی انتظامی طور پر کرپٹ ہے کرپشن اداروں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ایک آدمی پر جے آئی ٹی بنی پاناما سکینڈل میں باقی جن 250 لوگوں کے نام آئے جے آئی ٹی ان پر کیوں نہیں بنتی ہم صرف ایک شخص کے پیچھے پڑ گئے۔ سینیٹر اعظم موسٰی خیل نے کہا لگتا ہے کہ ملک کو خدانخواستہ اس نہج پر لے جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ سینیٹر شیخ عتیق نے کہا کہ جب تک سب کا بلا تفریق احتساب نہیں ہو گا قوم کی توقعات پوری نہیں ہوں گی۔ میر کبیر نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال کرپشن کی وجہ سے ہے غریب چنے بیچ رہے ہیں، قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کیوں دو وقت کی روٹی سے محروم ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے ججز اور جرنیلوں پر بھی آئینی دفعات 62-63 کے اطلاق کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے حکومت اپوزیشن کی مشاورت سے احتساب کا نظام وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تمام کرپٹ لوگوں کو 62-63 کی زد میں آنا چاہئے جس ادارے کے افسران صادق و امین نہ ہوں ان پر بلاتفریق 62-63 لاگو ہو۔ وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ کوئی دھرنوں کے سہولت کاروں کو طلب کر کے دکھائے ریلی شروع ہو گئی ہے لگ پتہ جائے گا بلاتفریق احتساب کا قانون بنانے کے لیے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے والے ڈیڑھ سال سے کرپٹ لوگوںکو تحفظ دے رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...