اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ آن لائن) پی اے سی نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان سٹیٹ آئل حکام نے انکشاف کیا کہ پٹرول اور ڈیزل 30سے 35روپے میں خریدا جاتا ہے اور 70سے 80روپے لٹر فروخت کیا جاتا ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ کم قیمت پر خرید کر ڈبل قیمت پر بیچنا عوام کے ساتھ زیادتی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جائے، پی ایس او حکام نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ واپڈا اور بجلی کی ترسیل کی کمپنیوں کے ذمہ 253ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے، جس میں واپڈا اور جینکوز کے ذمہ سب سے زیادہ 152ارب روپے بقایا جات ہیں، جس پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وصولیوں کو یقینی بنایا جائے، آڈٹ حکام نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ وزارت پٹرولیم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر خلاف قواعد اشتہاری کمپنی کو 7کروڑ روپے سے زائد کی اشتہاری مہم کا ٹھیکہ دیا، جس پر کمیٹی نے سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام کو کمیٹی کے اگلے اجلاس میں طلب کرلیا اور پی اے سی سیکرٹریٹ کو ہدایت دی کہ وزارت اطلاعات گزشتہ دس سالوں کے حکومتی اشتہارات اور اخراجات کی تفصیل بھی پیش کرے۔ کمیٹی کا اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزارت قومی تحفظ خوراک اور وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے مالی سال 2012-13ءاور مالی سال 2014-15ءکے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ خورشید شاہ نے وزارت تحفظ خوراک کے آڈٹ اعتراضات پر کہا کہ 2012ءکے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس دور میں غلطی کرنے والا کیا پکڑ میں آ سکتا ہے، آڈٹ اعتراضات پانچ سال پرانے ہوتے ہیں، پی اے سی کے پاس بھی کوئی طریقہ نہیں ہوتا کہ ذمہ داروں کا تعین کرے، جب سے پی اے سی اس حکومت میں شروع ہوئی ہے،2003ءکے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ جمہوریت کے نہ ہونے کی وجہ سے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینے میں تاخیر ہوئی، گزشتہ دس سالوں میں پی اے سی نے بہتر کام کیا ہے، آڈٹ والے 8ماہ میں رپورٹ بھیج دیتے ہیں۔ خورشید شاہ نے وزارت خزانہ اور آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر انفرادی طور پر ملاقات کریں تاکہ مسائل کو حل کیا جا سکے، کمیٹی نے وزارت قومی تحفظ خوراک کو ایک ماہ میں پلانٹ بریڈ کے حوالے سے قواعد بنانے اور کمیٹی میں بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ غریب عوام کے جیبوں سے پیسہ نکالا جا رہا ہے، پٹرول‘ ڈیزل کی ڈبل قیمت وصول کرنا درست نہیں، خورشید شاہ نے جب سی ایف او پی ایس او سے سوال کیا کہ کتنا لیوی ٹیکس لگتا ہے تو سی ایف او لیوی ٹیکس سے ہی لاعلم نکلے، انہوں نے بتایا کہ گیپکو کے ذمہ 67ارب روپے واجب الادا ہیں، پی ایس او کا اس سال کا مناقع 30ارب روپے ہے، کمیٹی نے کہا کہ اگریہ رقم ادا نہیں کرتے تو سپلائی روک دیں، جس پر سی ایف او پی ایس او نے جواب دیا کہ اگر سپلائی بند کر دیں تو پورے ملک میں بلیک آﺅٹ ہو جائے گا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم میں ایک ارب 18 کروڑ روپے کرپشن کا نیا سکینڈل بھی سامنے آگیا وزارت کے حکام نے ہالا آئل فیلڈ سے 11800 ملین روپے کا خام تیل بائیکو نامی ریفائنری کو فروخت کیا اور سات سال سے یہ رقوم وصول ہی نہیں کی جا سکیں۔ کرپٹ سرکاری افسروں کا کڑا احتساب کرنے کیلئے پی اے سی کے قوانین میں ترمیم کرنے کا بھی باضابطہ فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کو پی اے سی کی طرف سے بھیجے گئے 40 حکمناموں پر اسحاق ڈار نے ایک حکمنامہ پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جس کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے جبکہ محکمانہ کمیٹی میں نمٹائے گئے اربوں روپے مالیت کے آڈٹ اعتراضات کا ازسرنو جائزہ لینے کیلئے نئی کمیٹی بھی تشکیل دی جو اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کرے گی ۔ سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی نے انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی دور حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان منصوبے کے تحت جاری کئے گئے اربوں روپے کے فنڈز خرچ کئے جانے کے بغیر واپس کردیئے گئے تھے۔
پی اے سی