دو ہفتے پہلے ’سلامتی کونسل کی تشکیل نو“ عوامل و عواقب“ کے عنوان سے چھپنے والے میرے کالم کے حوالے سے جامعہ کراچی کی سابق استاد پروفیسر ڈاکٹر تنزیلہ حیات نے مندرجات کی تحسین کے ساتھ ساتھ سابق UN سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی سربراہی میں قائم تھنک ٹینک ”دی ایلڈرز (THE ELDERS) کا ذکر کیا ہے۔ جس نے کچھ عرصہ پہلے سلامتی کونسل کی ریفارمز کیلئے سنجیدہ قسم کی تجاویز پیش کی تھیں۔ جن کی صدائے بازگشت عالمی میڈیا میں بھی سنی گئی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کا ارشاد بجا، نیویارک میں قائم اس نام کا ایک تھنک ٹینک عالمی امن اور حقوق انسانی کیلئے کام کر رہا ہے جس کے سربراہUN کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان اور نائب ناروے کی سابق وزیراعظم برنٹیلنڈ ہیں۔ دیگر ارکان میں کئی ملکوں کے سابق صدور اور وزرائے اعظم شامل ہیں۔ جن میں ایک توانا آواز پاکستان سے محترمہ حنا جیلانی کی بھی ہے۔ فروری 2015ءکو ’نیویارک ٹائمز“ میں کوفی عنان اور برنٹلینڈر کا ایک مضمون چھپا تھا۔ ”FOUY IDEAS FOR A STRONGER UN“ جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی دگرگوں صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اصلاح احوال کیلئے چار عدد تجاویز پیش کی تھیں۔ ان کے مطابق اقوام متحدہ کی تخلیق کا بنیادی مقصد نوع انسانی کو جنگ و جدل سے محفوظ رکھناتھا جس کے حصول میں بدقسمتی سے وہ ناکام رہی ہے۔ خلق خدا اس وقت بھی جنگ، افلاس اور ناانصافی کی لپیٹ میں ہے اور اقوام متحدہ محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کچھ کرنے کی اس میں سکت ہے اور نہ صلاحیت، سب سے زیادہ مسئلہ سکیورٹی کونسل کے ساتھ ہوا ہے۔ امن عالم کا ذمہ دار یہ ادارہ اپنے چارٹر کے مطابق فرائض کی انجام دہی کے قابل نہیں رہا اور آدھی سے زیادہ دنیا یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ اسے اس درجہ بے عمل اور دقیانوسی ادارے کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا کا جواز ہے کہ دوسری عالمی جنگ جیتنے والی اقوام 72 برس بعد بھی من مانی کرتی اور عالمی برادری کی گردن پر سوار رہیں۔ سلامتی کونسل کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ مستقل ارکان کا ویٹو کا حق شدید ناانصافی ہی نہیں اقوام عالم کے مابین امتیازی سلوک کی بدترین مثال بھی ہے۔ رہی جنرل اسمبلی تو اس کی حیثیت ایک بے اختیار ڈیٹینگ سوسائٹی سے بڑھ کر نہیں، جس کا کام محض قراردادں کو منظور کرنا ہے۔ جن پر عمل درآمد کی سرے سے کوئی ضمانت نہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادارے کی اصلاح احوال کیونکر ہو؟
فی الوقت سلامتی کونسل پندرہ ارکان پر مشتمل ہے۔ پانچ ارکان (برطانیہ، چین، فرانس، روس، امریکہ) مستقل اور باقی دس دو برس کیلئے باری باری منتخب ہوتے ہیں۔ مستقل ارکان کے اختیار و وقار سے متاثر ہو کر کئی دیگر ریاستیں بھی اس صف میں شامل ہونے کیلئے بے قرار ہیں۔ ویٹو کے سحر نے انہیں باﺅلا بنا رکھا ہے۔ کوفی عنان اور برنٹلینڈ کی رائے میں نئے مستقل ارکان بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کی بجائے ممبرز کی ایک نئی کیٹیگری تشکل دی جائے، غیر مستقل ارکان کے برعکس جو نسبتاً زیادہ مدت کیلئے آئیں اور رکن ممالک چاہیں تو انہیں دوبارہ بھی منتخب کر سکیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک انہیں اپنی ووٹر ریاستوں کا اعتماد حاصل رہے گا وہ سلامتی کونسل کے رکن رہیں گے جس سے یہ ادارہ نسبتاً زیادہ جمہوری ہونے کا دعویٰ کر سکے گا۔ کوفی عنان اور برنٹلینڈ کے مضمون کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان اس امر کو یقینی بنائیں کہ ویٹو کو کسی طور بھی ذاتی مفاد میں استعمال نہیں کریں گے۔ ویٹو کا استعمال صرف اور صرف اس وقت ہو جب وہ دیانتداری سے محسوس کریں کہ متعلقہ صورت حال سے نمٹنے کیلئے کوئی اور چارہ نہیں رہا اور اس کے استعمال سے خلق خدا کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو گا۔ نیز ویٹو کا استعمال پانچوں ویٹو پاورز کی اجتماعی دانش کا مظہر ہونا چاہئے۔
تیسرا اہم نکتہ مشاورت ہے کہ جن کی تقدیر کا فیصلہ آپ کرنے جا رہے ہیں ان سے مشورہ ضرور ہونا چاہئے۔ انہیں اعتماد میں لئے بغیر بند دروازوں کے پیچھے فیصلے کرنے والی سلامتی کونسل کس طور بھی م¶ثر اور قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چوتھی اور آخری سفارش یہ ہے کہ لیڈرشپ کے چناﺅ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے چناﺅ کیلئے خفیہ اور پراسرار قسم کی کارروائیاں اس منصب کی توہین کے مترادف ہیں۔ عجب طرفہ تماشہ ہے کہ سیکرٹری جنرل کیلئے بعض ریاستیں اپنے نمائندے نامزد کرتی ہیں اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان مختلف طریقوں سے پسندیدہ امیدوار کیلئے لابنگ کرتے ہیں۔ سیکرٹری جنرل کا چناﺅ خالصتاً میرٹ پر ہونا چاہئے۔ عہدہ کی مدت بڑھا کر سات برس کر دی جائے اور سٹنگ سیکرٹری جنرل کو دوسری ٹرم کیلئے مقابلہ کی اجازت نہ ہو۔ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہو اور اس پر کسی ریاست / طاقت کا نمائندہ ہونے کی چھاپ نہ ہو، ورنہ پوری ٹرم احسانوں کا بدلہ چکانے میں صرف ہو جائیگی۔
بین الریاستی تعلقات اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ بھارت سلامتی کونسل کی مستقل نشست کیلئے کوالیفائی نہیں کرتا۔ پہلی بات یہ کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اس کا ٹریک ریکارڈ بے حد مایوس کن ہے۔ ایک ایسا ہٹ دھرم ملک جس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بے حرمتی کی ہو اور انہیں پرکاہ جتنی بھی اہمیت نہ دی ہو، اس اعزاز کا مستحق کیونکر ہو سکتا ہے؟ کشمیر کے مسئلہ پر سلامتی کونسل کی قراردادیں سات عشروں سے ایجنڈے پر موجود ہیں ان پر عمل درآمد تو رہا ایک طرف، بھارت نے تو الٹا کشمیریوں پر قیامت برپا کر رکھی ہے۔ سات لاکھ سے زائد سپاہ نہتے کشمیریوں کو مفتوح بنانے کے مشن پر ہے۔ کون سا ستم ہے جو ان مظلوموں پر روا رکھا نہیں گیا؟ دوسری بات یہ کہ سلامتی کونسل کی نشست کے حوالے سے بھارت عالمی سطح پر کسی قسم کا تعمیری کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہے۔ اس کے تو اپنے ہاتھ صاف نہیں اور ظالم سے انصاف کی توقع عبث ہے۔ اس کی تمام تر تگ و دو کا مقصد ویٹو کے ہتھیار سے مسلح ہو کر خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔