شو بز کی دُنیا میں گو کہ میں کوئی بہت جانی پہنچانی شخصیت تو نہیں ہوں مگر پھر بھی مجھے اس دُنیا کے لوگوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے 35برس کا عرصہ بیت چکا ہے ۔میں نے ان 35برس میں شو بزنس کے بڑے بڑے نام جن کا کہ طو طی بو لتا تھا ، اور جن کہ بغیر فلم سٹو ڈیوز پروڈیوسر ز ، ڈرائیکٹر خود کو نامکمل تصور کرتے تھے اچھی طرح یاد ہے ۔ ایک حقیقت ایک فسانہ ٹیلی ویثرن کا بہت مشہور سیر یل تھا ، اس میں دو مرکزی کر دار تھے ۔ڈرامے کا مرکزی خیال ریاض بٹالوی کی لکھی گئی کہانیو ں سے ماخوذ تھا ، اس میں جو کردار ایڈیٹر کا تھا وہ ادا کر رہے تھے ، جناب نثار قادری ۔ نثار قادری وہ فنکار جو کہ راولپنڈی میں ٹیکسی چلایا کرتے تھے اور ایک دن ریڈیو پاکستان کہ ایک پروڈیوسر اُن کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھے جب اُنھوں نے نثار قادری کو کہا کہ راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن جانا ہے تو کتنے پیسے لو گے ؟ تو نثار قادری نے اپنی بیسدار آواز میں بولے ، تو ریڈیو پروڈیو سر چونک گئے ، انھوں نے کہا میاں یہ تمھاری اپنی آواز ہے یا بنا کر بول رہے ہو ، نثار قادری نے کہا نہیں جناب یہ میری اپنی آواز ہے ، اُنھوں نے کہا ریڈیو میں میں کام کرو گے ، نثار قادری مسکرائے ، اور پھر ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں صدا کار بن گئے ۔ مختلف ریڈیو ڈرامے کئے ، پھر لاہور ٹیلی ویثرن ، کراچی ، کوئٹہ ، اور پاکستان ٹیلی ویثر ن سے ہوتے ہوئے ، واپس لاہور ٹیلی ویثر ن پر آگئے ، اُن کا ایک یاد گا ر کردار ایک حقیقت ایک فسانہ میں تھا جس میں انکا تکیہ کلام تھاْ ماچس ہوگی آپ کے پاس ، اِس کے علاوہ بھی اُنھوں نے بے شمار یاد گار کردار ادا کئے پاکستان ٹیلی ویثر ن کے تمام اسٹیشنزپر انھوں نے کام کیا، مگر آج کے دور میں کسی نئے پروڈیوسر اور ڈاریکٹر سے اگر پوچھو کہ نثار قادری کو جانتے ہو ؟ تو وہ انکار کر دے گا ۔ اسی طرح کا ایک بڑا نام سجاد کشور کا ہے ، جو کہ بنیادی طور پر صحافی تھے مگر پھر ٹیلی ویثرن راولپنڈی سے اُنھوں نے اپنی اداکاری کا آغاز کیا ، مجھے جو اُن کا سب سے پہلا ڈرامہ یاد ہے جو میں نے خود دیکھا تھا وہ ہے قربتیں اور فاصلے تھا آج وہ کسمپرسی میں ہیں آپ دور کیوں جاتے ہیں افضال احمد کو دیکھ لیجئے ، کتنا بڑا نام ہے ، ریڈیو فلم اور تھیٹر کا آج گمنامی کی زندگی میں گم ہیں کبھی اس کے نام سے ٹکٹ بکتے تھے ، ایک غیر ملکی نے جب اس کا ڈرامہ دیکھا ، تو اُس نے اِسے پاکستانی ( لوسی ) کا نام دیا وہ گاتی بھی بہت اچھا تھی ، کس اداکارہ کا نام رومانہ ہے افسوس ہے کہ یہ اداکارہ رومانہ جس نے کہ ٹی وی پر بھی بے شمار مزاحیہ پروگرام کئے ، اور اپنی اداکاری کا لوہہ منوایا ، کسی کو نہیں پتا کہ یہ فنکارہ لاہور کی سڑکوں پر بھیگ مانگ کر اور انتہائی غربت کی حالت
میں مرنے والی شاید پاکستان کی پہلی خاتون اداکارہ تھیں ۔ اللہ کسی پر ایسا وقت نہ لائے ، رومانہ ہنسانے والی واحد کامیڈین کوئن تھیں جو سٹیج پر آتے ہی چھا گئی ۔ کچھ دن پہلے میں امجد اسلام امجد سے ٹیلی فون پر بات کر رہا تھا تو باتوں باتوں میں مجھے پی ٹی وی کا ڈرامہ یا نصیب کلینک یاد آگیا جو کہ امجد اسلام امجد صاحب نے تحریر کیا تھا ، اور اس ڈرامے میں سلیم ناصر جیسے بڑے فنکا ر کی موجودگی کے باوجود رومانہ اس ڈرامے میں پوری طرح چھائی رہی ، اور میں نے ہنستے ہوئے جناب امجد اسلام امجد سے کہا کہ امجد صاحب آپ کے کمرے میں ہرے رنگ کی چادر ہے ، تو امجد اسلام امجد صاحب نے قہقہ لگایا اور کہنے لگے امین تمھیں یاد ہے یہ ڈرامہ میں نے کہا جی سر اچھی طرح سے یاد ہے کیونکہ اس میں رومانہ نے ایک نرس کا کر دار اد ا کیا تھا ۔ اور وہ جب بھی کسی مریض کے کمرے میں داخل ہوتی تو یہ سوال ضرور کرتی ، کہ آپ کے کمرے میں ہرے رنگ کی چادر ہے ؟ پھر میں اور امجد اسلام امجد صاحب رومانہ کی زندگی کے بارے میں بات کرنے لگ پڑے ، اور ہم لوگ بڑے دُکھی ہوگئے ۔علی اعجاز نے رومانہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سے شادی ضرور کرے گا ، مگر علی اعجاز نے وعدہ خلافی کی اور پھر ایک دن چپکے سے جاکر سیالکوٹ میں شادی کر لی، اور اسی شادی والے دن ، یہ خبر رومانہ تک پہنچ چکی تھی ، بس اس دن کے بعد سے رومانہ اندر سے ٹوٹ گئی ، اور نشہ آور ادویات کا استعمال شروع کردیا ۔ رومانہ کو دیکھتے ہوئے ، میڈیم باوری لکھا ، جو سپر ہٹ ثابت ہوا ۔ سید نور صاحب نے پیسے بنائے ، اور پھر نور صاحب بھی رومانہ کو مایوس کر کے نشے کے سہارے چھوڑ گئے ، پھر رومانہ نے اپنے آپ سے جنگ شروع کردی ، آخر ایک دن رومانہ ہار گئی اور نشہ جیت گیا ، لیکن اللہ کا انتقام آپ اِسے جو بھی کہیں ، جس شخص نے رومانہ کو اس حال تک پہنچایا اس کا اپنا حال بھی بہت درد ناک ہوا ۔ رومانہ نے اپنی آخری زندگی میں فلموں کا بھی رُخ کیا مگر نشہ اُس کی روح میں اتنا سما چکا تھا کہ آخر کار وہ سڑکوں پر رُلتی رُلاتی دُنیا سے چلی گئی ، اِن تمام فنکاروں کا جو ذکر میں نے آپ سے کیا ہے ، اس کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ رنگین روشنیوں کی دُنیا جسے ہم فلم ، تھیٹر ، ٹی وی اور ریڈیو کہتے ہیں یہ ایک بہت بڑا دھوکا ہے ، جب تک آپ کا نام بکتا ہے ، ڈاریکٹر ، پروڈیوسر آپ کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں ، اور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کر نے کے لئے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ، مگر جب آپ کو اپنی عملی زندگی میں ناکامی کا شکار ہونا پڑے ، تو پھر یہ لوگ بڑی آہستگی کے ساتھ آپ سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں آپ کو پہنچانے سے انکا ر کردیتے ہیں ۔ اور آج کے دور میں بھی جتنے میرے نئے فنکار اس وقت عروج پر ہیں ، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی شہرت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا ، تو وہ بہت بڑے دھوکے میں ہے اِس لئے خدارا میری اُن تمام شوبز کے لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے سینئیر ز کی عزت اور احترام کریں