طوفانی بارش نے بلوچستان میں سیلابی صورتحال پیدا کر دی۔کئی مویشی اورپل بہہ گئے۔ کئی علاقوں کا زمینی راستہ منقطع‘ 8 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ کراچی میں 3 روز کے دوران کرنٹ لگنے سمیت دیگر حادثات میں اموات کی تعداد 15 ہو گئی۔
بارش کے رحمت ہونے کے حوالے سے دور آرا نہیں ہو سکتیں۔ بارشوں کے باعث اگر کہیں تباہی و بربادی ہوتی ہے تو اس کی اوّل اور ذمہ دار حکومتیں ہیں۔ بارش ہر سال ہوتی ہیں مگر تباہی بربادی کا سامان کبھی کبھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ادارے موجود ہیں جو بارشوں کے پانی سے سیلاب بننے کے بعد میدان عمل میں کودتے ہیں۔ سیلاب زدگان کو بچانے کی کوشش کرتے اور پھراگلے سیلاب کے منتظر ہو جاتے ہیں۔ درمیانی وقفے میں لمبی تان کو سوئے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان کی نظر تمام تر جزئیات پر ہمہ وقت ہونی چاہئے۔ کونسی عمارت بوسیدہ ہے ، کونسا پل کمزور ہے۔ کہاں پشتوں کی ضرورت ہے۔ ایسی ذمہ داریوں کا ادراک ہو تو نقصان کم سے کم سطح پر لایا جا سکتا ہے۔کراچی شہر اگر ڈوبا اور 15 افراد موت کی لکیر پار کر گئے ہیں تو اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ رواں سال بھی سیلابوں کی پیش گوئی کی گئی۔ ان سے نمٹنے کی ابھی سے متعلقہ محکموں کو فعال متحرک اور سرگرم ہو جانا چاہئے تاکہ جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
بلوچستان میں سیلاب سے تباہی
Aug 10, 2020